نادان لڑکی کی خوفناک داستان
سچا واقع۔۔۔
دوستو یہ واقع ہے مسلم آباد علاقے کا جہاں ایک اعجاز عرف ججی نامی شخص رہا کرتا تھا جو کہ کسی وقت پر بہت نامور غنڈا تھا پر وہ اپنا زیادہ تر وقت درباروں مزاروں پر ہی گزرا کرتا تھا کیونکہ وہ فقیروں اور درویشوں کا بہت ماننے والا تھا ایک دن کسی اللّٰہ کے ولی نے اس کو سمجھایا اور وہ راہ راست پر آگیا اور اس کے بعد ججی سب غلط کام چھوڑ دیئے اور وہ بہت ہی محنتی دیانتدار پرہیز گار شخص بن گیا تھا اور کسی کپڑے والے کی دوکان پر کام کیا کرتا تھا پھر ججی کی شادی ہو گئی اور پھر بچے ہو گئے بس یہ سمجھ لو کہ اس کی زندگی بہت ہی خوشگوار گزر رہی تھی اور وقت ایسے ہی گزرتا گیا۔ ججی کی دو اولادیں تھیں ایک اس کا پندرہ سالہ بیٹا قمر جو کہ آٹھویں کلاس میں تھا اور دوسری اس کی بیٹی شازیہ تھی جو کہ بارویں کلاس کی سٹوڈنٹ تھی ۔ قمر روزانہ شازیہ کے ساتھ سکول جاتا اور کچھ دور ہی جا کر شازیہ سے الگ ہو جاتا کیونکہ قمر کا سکول شازیہ کے کالج سے کافی پیچھے تھا تو اس وجہ سے آگے سے شازیہ اکیلے ہی کالج چلی جاتی تھی۔ ایک دن ججی کام سے گھر واپس آیا تو ججی کی بیوی (حاجرہ) نے ججی کو پانی کا گلاس پکڑاتے ہوئے سے کہا ۔ شازیہ کے ابو مجھے آپ سے ایک بات کرنی ہے ججی نے پانی کے دو گھونٹ لیئے اور گلاس ہاتھ پکڑ کر حاجرہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ہاں بولو حاجرہ کیا بات ہے ؟؟ حاجرہ نے کہا مجھے شازیہ کی فکر ہو رہی ہے کیونکہ اب وہ جوان ہو گئی ہے اور مجھے اب اس کا ایسے اکیلے باہر جانا کچھ ٹھیک نہیں لگتا ۔ ججی نے باقی کا پانی پیا اور مسکراتے ہوئے حاجرہ کی طرف دیکھ کر بولا ارے تم کیوں اتنا پریشان ہو رہی ہو ہماری بیٹی گھر سے باہر پڑھنے کے لیئے جاتی تو اس میں کیا برائی ہے سب لوگوں کی بچیاں پڑھنے جاتیں ہیں اور ویسے بھی وہ اکیلی کب جاتی ہے قمر بھی تو کچھ دور تک اس کے ساتھ ہی جاتا ہے نا ؟؟ حاجرہ نے ججی سے آنکھیں چراتے ہوئے انداز کہا لیکن میں چاہتی ہوں کہ بس بہت ہو گئی پڑھائی اب ہمیں شازیہ کی شادی کے بارے میں سوچنا چاہیئے۔ ججی نے حیرت سے حاجرہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا یار یہ تم کیا کہہ رہی ہو تمہیں پتا ہے نا ہماری بیٹی ابھی آگے پڑھنا چاہتی ہے اور میں نے اپنی بیٹی کو بولا ہے وہ جتنا پڑھنا چاہتی ہے میں اسے پڑھاؤں گا تو تم اب اچانک ایسی باتیں کیوں کر رہی ہو ؟؟ حاجرہ نے پھر سے ججی سے نظریں چراتے ہوئے کہا وہ آج مجھے کسی نے بتایا کہ کوئی لڑکا شازیہ کا پیچھا کرتے ہوئے ہمارے گھر تک آیا تھا اور میں نے جب شازیہ سے پوچھا تو اس نے کہا کہ امی میں نہیں جانتی وہ کون ہے اور میرے پیچھے کیوں آیا تھا میں تو کالج سے نظریں جھکائے سیدھا اپنے گھر آتی ہوں اس دوران میرے پیچھے کون آتا جاتا ہے مجھے اس کا کوئی پتا نہیں ہے ۔ حاجرہ کی یہ بات سن کر ججی تھوڑا غصے میں آگیا اور بولا یہ کس وقت کی بات ہے ؟؟ حاجرہ نے کہا یہ دو دن سے ہو رہا ہے اسی وجہ سے میں چاہتی ہوں کہیں کچھ غلط نا ہو جائے ۔ ججی نے کہا ارے کسی دوسرے کی غلطی کی سزا تم اپنی بیٹی کو دینا چاہتی ہو وہ بھی اس کی پڑھائی چھڑوا کر ؟ یہ کہاں کی عقلمندی ہے ؟؟ حاجرہ نے کہا دیکھیں میں جانتی آپ کو اس وقت میری باتیں بری لگ رہی ہیں لیکن یہ بھی تو سوچیں محلے دار کیا سوچیں گے ہماری اس محلے میں بہت عزت ہے اور میں نہیں چاہتی کہ کسی بھی وجہ سے ہماری عزت پر کوئی حرف آئے ۔ ججی نے کہا لیکن اس بات کا یہ حل تو نہیں ہے کہ ہم کسی ایرے غیرے کی وجہ سے اپنی بیٹی سے اس کے پڑھنے کا حق چھین لیں ۔ حاجرہ نے کہا پر ۔۔ ججی نے حاجرہ کی بات کاٹتے ہوئے کہا پر ور کچھ نہیں میں نے کہہ دیا میری بیٹی آگے پڑھے گی تو بس پڑھے گی اور یہ جو کوئی بھی ہے جو شازیہ کا پیچھا کرتا ہے اس کو تو میں خود دیکھ لوں گا ۔ ابھی حاجرہ اور ججی یہ باتیں کر ہی رہے تھے کہ شازی بھی ان دونوں کے پاس آگئی اور شازیہ نے ججی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ابو اسلام وعلیکم ۔ ججی نے سلام کا جواب دیتے ہوئے شازیہ کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا ارے ماشاءاللہ بیٹی کیا حال ہے اور تمہاری پڑھائی کیسی چل رہی ہے ؟ شازیہ نے کہا ابو بہت اچھی جا رہی ہے اور آپ دیکھنا اس بار بھی میں کلاس میں ٹاپ کروں گی۔ ججی نے کہا انشاء اللّٰہ بیٹی انشاء اللّٰہ کیوں نہیں ۔ یہ کہتے ہوئے ججی نے حاجرہ کی طرف دیکھا اور کہا۔ کیوں۔۔۔۔۔ دیکھ رہی ہو نا ہماری بیٹی کتنی محنت سے پڑھ رہی ہے اور تم ہو کہ اس کی پڑھائی بند کروانا چاہتی ہو ۔ شازیہ نے جب ججی کی یہ بات سنی تو ماتھے بل ڈالتے ہوئے حاجرہ کی طرف دیکھتے ہوئے بولی کیا؟؟؟؟؟ امی آپ میری پڑھائی چھڑوانا چاہتی ہیں ؟؟ پر کیوں امی ؟ ؟ حاجرہ نے کہا ہاں میں چاہتی ہوں اور اس کی وجہ تمہارے ابو کو بتا چکی ہوں ۔ شازیہ نے افسردہ سا ہو کر ججی کی طرف دیکھا اور بولی ابو یہ سب کیا ہے ؟؟ ججی نے کہا ارے میری بیٹی تم پریشان کیوں ہوتی ہو میں نے تو نہیں کہا نا کہ تم پڑھائی چھوڑو بلکہ میں نے تمہاری امی سے کہہ دیا ہے کہ میری بیٹی جہاں تک چاہے گی میں اسے پڑھاؤں گا اور اسے پوری طرح سے سپورٹ کروں گا کیونکہ میری بیٹی پڑھے گی تو اس کو دنیا داری معاشرے میں عزت سے سر اٹھا کر جینے کے طور طریقوں کا پتا چلے گا اور پھر اس کے بعد میں اپنی بیٹی کی شادی کرواؤں گا تاکہ میری بیٹی شادی کے بعد جس گھر میں بھی جائے گی تو اس گھر والوں کا بھی سر فخر سے بلند ہو جائے گا کہ ان کی بہو پڑھی لکھی ہونہار اور قابلِ عزت ہے۔ اور یہی بات میں تمہاری امی کو سمجھانا چاہتا ہوں۔ یہ کہتے ہوئے ججی حاجرہ کی طرف دیکھ کر ہوئے مسکرانے لگا۔ ججی کی یہ بات سن کر حاجرہ نے اپنی گردن نہ میں ہلاتے ہوئے کہا جو مجھے سہی لگا میں نے کہہ دیا اب آپ جانے اور آپ کی بیٹی جانے ۔ یہ کہہ کر حاجرہ کمرے میں چلی گئی اور پھر شازیہ نے ججی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا شکریہ ابو میں بہت خوش قسمت ہوں جو میں آپ کی بیٹی ہوں اور میں نے ہمیشہ آپ کا سر فخر سے بلند کرنے کی کوشش کی ہے اسی لیئے میں پڑھائی میں بہت محنت کرتی ہوں ۔ شازیہ کی یہ بات سن کر ججی نے ایک بار پھر سے شازیہ کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا میں جانتا ہوں میری بچی ۔ پھر ججی نے کہا اچھا بیٹی تمہاری امی بتا رہی تھی کہ کوئی تمہارا پیچھا کرتا ہے ذرا مجھے اس بارے میں کچھ بتاؤ ؟؟ شازیہ نے کہا جی ابو پر میں نہیں جانتی وہ کون ہے اور میرے پیچھے کیوں آتا ہے لیکن میں نے تو اس کی شکل تک نہیں دیکھی کیونکہ میں صرف نگاہیں جھکائے سیدھا گھر آتی ہوں ۔ شازیہ کی یہ بات سن کر ججی اپنی داڑھی پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کچھ سوچنے لگا اور پھر اچانک شازیہ کی طرف دیکھتے ہوئے بولا کوئی بات نہیں بیٹی تم اب اس کی فکر نا کرنا بس تم اپنی پڑھائی پر توجہ دو باقی سب میں دیکھ لوں گا ۔ اتنے میں قمر آیا اور ججی کی طرف دیکھتے ہوئے کہنے لگا ابو آجائیں امی نے کھانا لگا دیا ہے ۔ ججی نے شازیہ کو کہا چلو آؤ بیٹی کھانا کھائیں ۔ یہ کہہ کر ججی قمر اور شازیہ کے ہمراہ کھانا کھانے چلا گیا ۔ اگلے دن صبح شازیہ پھر سے قمر کے ساتھ کالج گئی اور روز کی طرح پڑھائی کے بعد کالج سے واپس آرہی تھی کہ ایک لڑکا شازیہ کے پیچھے پیچھے چلنے لگا آہستہ آہستہ سے شازیہ کو آوازیں دینے لگا لیکن شازیہ چپ چاپ چلتی جا رہی تھی اتنے میں وہ لڑکا تھوڑا تیزی سے چل کر بالکل شازیہ کے قریب ہو گیا اور پھر سے کہنے لگا ہیلو رکو تو میری بات سن لو ؟؟ پر شازیہ بنا اس کی طرف دیکھے چپ چاپ چل رہی تھی اتنے میں اس لڑکے نے آگے بڑھ کر شازیہ کا ہاتھ پکڑ لیا اسی وقت شازیہ نے ایک زور دار تھپڑ اس لڑکے کے منہ پر دے مارا اور تیز تیز چلنے لگی اس لڑکے نے اپنا ہاتھ اپنے گال پر رکھا اور غصے سے شازیہ کی طرف بڑھا ابھی وہ دوبارہ شازیہ کو چھونے ہی والا تھا کہ اس لڑکے کو کسی نے پکڑ لیا اور وہیں روک لیا ۔ لڑکے نے خود کو چھڑانے کی بہت کوشش کی لیکن کسی نے لڑکے کو بہت زبردست طریقے سے پکڑا ہوا تھا اور شازیہ دیکھتے ہی دیکھتے لڑکے کی آنکھوں سے اوجھل ہو گئی پھر اس لڑکے نے غصے سے روکنے والے کی شکل کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا کون ہو تم مجھے کیوں پکڑا ہے؟؟اس لڑکی نے مجھے تھپڑ مارا ہے چھوڑو ۔۔۔؟؟ مجھے اس سے بدلہ لینا ہے ۔۔۔ تو لڑکے کو روکنے والے نے کہا شکر کرو اس نے تمہیں تھپڑ مارا ہے ورنہ میں ہوتا تو تمہیں جان سے مار دیتا اور تمہاری لاش کسی کوڑے دان میں پڑی ہوتی ۔ یہ سنتے ہی لڑکے کہا پر تم ہو کون ؟؟ پھر اس شخص نے کہا میرا نام اعجاز عرف ججی ہے اور میں اس لڑکی کا باپ ہوں جس کا تم پیچھا کرتے ہو ۔ ججی کی یہ بات سن کر ہی لڑکا تھر تھر کانپنے لگا اور بولا انکل مجھے معاف کر دیں میں آج کے بعد کبھی آپ کی بیٹی کا پیچھا نہیں کرونگا ۔ ججی نے کہا میں تمہیں ضرور چھوڑ دونگا پر پہلے تم یہ بتاؤ تمہارا نام کیا ہے ؟ لڑکے نے کہا میرا نام دلاور ہے ۔ ججی نے کہا اور تمہارے والد کا نام کیا ہے ؟ دلاور نے کہا کیوں۔۔۔؟؟ آپ ان کا نام کیوں جاننا چاہتے ہیں؟؟ ججی نے کہا میں تمہارے ماں باپ سے ملنا چاہتا ہوں ۔ دلاور نے کہا انکل پلیز آپ کی مہربانی آپ مجھے چاہے جتنا مرضی مار لیں پر آپ یہ بات میرے ماں باپ تک مت لے کر جائیں۔ اتنے میں کچھ لوگ پاس سے گزرتے ہوئے رک گئے اور ججی کی طرف دیکھتے ہوئے بولے ارے بھائی آپ نے اس لڑکے کو کیوں پکڑا ہوا ہے ۔ججی نے کہا دیکھیں یہ ہمارا نجی معاملہ ہے برائے مہربانی آپ لوگ بیچ میں مت آئیں مجھے اس کے ماں باپ سے بات کرنی ہے ۔ اتنے میں انہیں لوگوں میں سے ایک نے دلاور کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ارے یہ تو اپنے دلشاد بھائی کا بیٹا لگ رہا ہے ۔ یہ سنتے ہی ججی نے اس آدمی سے کہا کونسے دلشاد بھائی ؟ اس آدمی نے کہا جناب 13 نمبر گلی میں ان کا گھر ہے اور گھر کے ساتھ ہی دلشاد بھائی کی دوکان ہے ۔ یہ سن کر ججی نے کہا اچھا اچھا۔۔ دلشاد بھائی وہ تو نہیں جو خراد کا کام کرتے ہیں ؟؟ اس آدمی نے کہا جی جی وہی ہیں پر بات کیا ہے ؟؟ ججی نے کہا کچھ نہیں مجھے ذرا ان سے ملنا ہے ۔ یہ کہہ کر ججی دلاور کو گھسیٹتے ہوئے دلشاد کی دوکان پر لے گیا ۔ اور جیسے ہی دلشاد کی نظر ججی پر پڑی اور اس نے اپنے بیٹے کا گریبان ججی کے ہاتھ میں دیکھا تو وہ فوراً بھاگ کر ججی کے پاس آگیا اور حیرت سے بولا ججی بھائی خیر تو ہے؟؟ یہ آپ نے میرے بیٹے کو ایسے کیوں پکڑا ہوا ہے ؟؟ ججی نے کہا دلشاد بھائی آپ مجھے کب سے جانتے ہو ؟ دلشاد نے کہا میں آپ کو بہت سالوں سے جانتا ہوں لیکن آپ کو میں نے آج تک اتنے غصے میں نہیں دیکھا آخر بات کیا ہے ججی بھائی ؟؟ ججی نے کہا یہ آپ کا بیٹا روز میری بیٹی کا پیچھا کرتا ہے اور آج تو اس نے حد ہی پار کر دی اس نے میری بیٹی کا ہاتھ پکڑنے کی کوشش کی اور اس کے بعد بھی یہ میری شرافت کی حد ہے جو میں اس کو آپ کے پاس زندہ لے کر آگیا ہوں ورنہ آج اس کی لاش پر آپ لوگ بین ڈال رہے ہوتے آپ مجھے اچھی طرح جانتے ہیں کہ میں شادی کے بعد پوری طرح سے بدل گیا ہوں اور تب سے ایک شریف آدمی کی طرح زندگی گزارنے کی کوشش کر رہا ہوں کیونکہ اب میں ایک بیٹی کا باپ بھی ہوں اسی وجہ سے میں نہیں چاہتا تھا کہ کوئی میرے بچوں کو یہ طعنہ دے کہ ان کا باپ ایک غنڈا ہے اس وجہ سے آج پہلی اور آخری بار آپ سے اس کی شکایت کر رہا ہوں اس کے بعد اگر دوبارہ یہ میری بیٹی کے آس پاس بھی نظر آیا تو اس کو ایک بیٹی کا باپ نہیں بلکہ وہ ججی ملے گا جو میں شادی سے پہلے تھا پھر اس کے کفن دفن کا انتظام آپ کر کے رکھنا ۔ یہ کہتے ہوے ججی نے جھٹکے سے دلاور کو دلشاد کی طرف پھینکا اور وہاں سے چلا گیا ۔ اس کے جاتے ہی دلشاد نے دلاور پر تھپڑوں کی بوچھاڑ کر دی اور بولا ارے تجھے معلوم نہیں تو کس بلا کے ہاتھ سے زندہ بچ گیا ہے ۔ وہ بہت سال پہلے نامور غنڈا تھا اور اچھے اچھے لوگ اس کے نام سے کانپتے تھے تو تم کیا چیز ہو جو اس کی بیٹی کو چھیڑنے نکلے تھے ؟؟ دلاور نے کانپتے ہوئے کہا ابو خدا کی قسم آج کے بعد میرے باپ کی توبہ جو میں اس لڑکی کے قریب جانے کا سوچوں بھی تو ۔ دلشاد نے دلاور کو پھر زور دار تھپڑ مارتے ہوئے کہا کمبخت میری توبہ کروا رہا ہے خود کی توبہ نا کری۔ ۔ دلاور نے روتے ہوئے کہا میری توبہ ابو میری توبہ۔۔ دلشاد نے کہا چل دفعہ ہو جا اندر تیری ماں سے بھی بات کرتا ہوں میں آکر ۔ یہ کہتے ہوئے دلشاد پھر سے اپنے کانوں کو ہاتھ لگاتا ہوا اپنی دوکان میں چلا گیا اور دلاور گھر چلا گیا ۔ پھر ججی جب اپنے گھر پہنچا تو دیکھا کہ شازیہ بیٹھی رو رہی تھی اور حاجرہ اور قمر اس کو چپ کروا رہے تھے ۔ججی نے کہا ارے کیا ہوا بیٹی تم رو کیوں رہی ہو ؟ شازیہ نے جب باپ کو دیکھا تو دوڑ کر ججی کے گلے لگ کر رونے لگی ججی نے شازیہ کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے پھر اپنے سے دور کرتے ہوئے کہا ارے بیٹی بتاؤ تو ہوا کیا ہے؟؟۔ پھر شازیہ نے اپنے ہاتھوں سے آنسوں صاف کرتے ہوئے ججی کو دلاور کے بارے میں سب بتایا تو ججی نے انجان بنتے ہوئے کہا اچھا اس کی یہ مجال ؟ پھر کیا ہوا ؟؟ شازیہ نے کہا پتا نہیں ابو میں تو تیزی سے چلتے ہوئے آگئی تھی ۔ یہ سب سن کر ججی نے کہا بیٹی تم پریشان مت ہو کل سے تمہیں کوئی تنگ نہیں کرے گا ۔ شازیہ نے حیرانی سے ججی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا پر ابو آپ کو کیسے پتا ہے کل وہ مجھے تنگ نہیں کرے گا وہ تو روز میرے پیچھے آتا ہے ؟؟۔ ججی نے مسکراتے ہوئے کہا کیونکہ آج میں اس کو تنگ کر کے آگیا ہوں اور تم دیکھنا کہ اب وہ دوبارہ تمہارے پیچھے کبھی نہیں آئے گا ۔ ججی کی یہ بات سن کر سب گھر والے ججی کی طرف حیرت سے دیکھنے لگے ۔حاجرہ نے کہا کیا کر کے آئے ہیں آپ ؟؟ ججی نے کہا ارے بھئی کچھ نہیں کر کے آیا میں تو بس اس کے باپ سے چند میٹھی میٹھی باتیں کر کے آیا ہوں ۔تو اس کے باپ نے اس کو سمجھا دیا اب وہ دوبارہ اس گلی سے بھی نہیں گزرے گا جہاں سے ہماری بیٹی گزرے گی ۔ حاجرہ نے کہا اچھا چلیں ٹھیک ہی ہے اب کم سے کم محلے میں کوئی بات نہیں کرے گا ورنہ دو دن سے تو میں بہت ہی پریشان تھی ججی نے کہا بس تمہیں تو محلے داروں کی فکر رہتی ہے ایسے ہی فضول سوچوں میں پڑی رہتی ہو ۔یہ کہنے کے بعد ججی نے کہا اچھا اب میں چلتا ہوں دوکان سے کچھ دیر کی چھٹی لے کر آیا تھا یہ کہہ کر ججی چلا گیا ۔ اس دن کے بعد شازیہ روز حسبِ معمول کالج آیا جایا کرتی اور دوبارہ کسی لڑکے نے اس کا پیچھا نہیں کیا پھر کچھ عرصہ کے بعد شازیہ نے پڑھائی مکمل کر لی اور حاجرہ کے ساتھ گھر گھرستی بھی سیکھ گئی اور ایک دن شازیہ نے ججی سے کہا ابو کیا میں جاب کر کے آپ کا ہاتھ بٹا سکتی ہوں ؟؟ یہ سنتے ہی ججی نے ماتھے پر بل ڈالتے ہوئے شازیہ کی طرف دیکھا اور کہا بیٹی میں ابھی زندہ ہوں اور میں نے تمہیں اس وجہ سے نہیں پڑھایا کہ ایک دن میں تم سے جاب کروا سکوں بلکہ میں نے تمہیں اس وجہ سے پڑھایا ہے کہ تم زندگی میں کسی کی بھی محتاج نا رہو اور تمہاری اصل زندگی تمہاری شادی کے بعد ہی شروع ہو گی اور رہی بات تمہارے جاب کرنے کی تو شادی کے بعد تم اپنے شوہر کی اجازت لے کر کر لینا اگر وہ چاہے تو ۔ شازیہ نے کہا پر ابو میں چاہتی ہوں کہ میں آپ کا بوجھ کم کر سکوں کیونکہ آپ بہت دیر سے محنت کر رہے ہیں اب میں اس قابل ہو گئی ہوں کہ میں آپ کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر آپ کے ساتھ محنت کروں اور گھر کے اخراجات کے معاملات میں آپ کی مدد کر سکوں ۔ ججی نے افسردہ انداز میں کہا میری بیٹی کیا میں نے تمہیں کسی چیز سے محروم تو نہیں کر دیا ؟؟ یا کوئی ایسی خواہش ہو جو میں پوری نہیں کر سکا ؟؟ شازیہ نے کہا ارے نہیں نہیں ابو آپ نے تو ہمیں دنیا کی ہر چیز لا کر دی ہے اور ہماری ہر خواہش کو پورا کیا ہے ۔ ججی نے کہا تو بیٹی تم یہ کیوں سوچ رہی ہو کہ تمہارا باپ اب محنت کر کے تھک چکا ہے اور اس کے لیئے مجھے اب کسی سہارے کی ضرورت ہے؟؟ یہ کہتے ہوئے ججی کی آنکھوں میں آنسوں آگئے ۔ شازیہ نے جلدی سے باپ کے آنسوں پونچھتے ہوئے کہا ابو آئی ایم سوری پر میرا ہرگز یہ مطلب نہیں تھا میں تو بس آپ کی مدد کرنا چاہتی تھی لیکن میں آپ کو دکھی نہیں کرنا چاہتی تھی آپ مجھے معاف کر دیں ججی نے شازیہ کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا میری بیٹی میں جانتا ہوں تم میرے بھلے کے لیئے کہہ رہی تھی پر میں نہیں چاہتا کہ میرے جیتے جی میری بیٹی نوکری کرے ۔ میں پڑھا لکھا نہیں ہوں پر میں نے دنیا کی اونچ نیچ دیکھی ہے اور میں نہیں چاہتا کہ کل کو کوئی مجھے دیکھ کر بولے کہ یہ بیٹی کی کمائی کھاتا ہے اور اگر کبھی کسی نے ایسا بول دیا تو میں جیتے جی مر جاؤں گا کیونکہ میں نے بہت مشکل سے آج چار لوگوں میں اپنی عزت بنائی ہے اور میں نہیں چاہوں گا کہ میری عزت پر کوئی حرف آئے تاکہ اس سے تمہارے رشتے میں کسی بھی قسم کی کوئی دشواری نا ہو کیونکہ آجکل ہمارے معاشرے میں ہماری یہ بہت بڑی خامی رہی ہے کہ ہم لوگوں نے بیٹیوں کے اچھے رشتے ان کے ماں باپ کی عزت سے مشروط کیئے ہوتے ہیں ۔ اگر کسی کے ماں باپ میں کوئی کمی ہو تو ہم لوگ وہاں رشتہ ہی نہیں کرتے جبکہ جس بیٹی کو ہم نے بہو بنا کر اپنے گھر لانا ہوتا ہے اس کی اچھائیوں کو نہیں دیکھتے اور بیٹی چاہے جتنی بھی اچھی ہو لیکن جب وہ اپنے سسرال میں ذرا سی بھی غلطی کرے تو اس کو پہلا طعنہ یہی ملتا ہے کہ اس کے ماں باپ ہی ایسے ہیں جنہوں نے اپنی بیٹی کی ایسے پرورش کی ہے ۔ تو اس وجہ سے میں اپنی عزت بنا کر رکھنا چاہتا ہوں اور اسی وجہ سے میں نے تمہیں پڑھایا لکھایا ہے تاکہ کوئی تمہیں اور ہمیں کسی قسم کی کوئی غیر ضروری بات نا کرے ۔ اور رہی بات میرا ہاتھ بٹانے کی تو اگر مجھے کسی سہارے کی ضرورت پڑھی بھی تو تمہارا بھائی ہے نا میرے کاندھے سے کاندھا ملانے کے لیئے اور میرے لیئے وہی ٹھیک رہے گا کیونکہ تم میری بیٹی ہو اور میں تمہیں جگہ جگہ نوکری نہیں کرنے دے سکتا ہاں جب تمہاری شادی ہو جائے گی تو تم اپنے شوہر کے کاندھے سے کاندھا ملانا اور اس کے ہر قدم پر اس کا ساتھ دینا اور کوئی بھی کام بنا اس کی مرضی کے مت کرنا ۔ شازیہ نے کہا جی ابو میں سمجھ گئی اور اب آپ کبھی اداس مت ہونا میں آپ کو ہمیشہ خوش دیکھنا چاہتی ہوں ۔ ججی نے پھر سے شازیہ کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا میں خوش ہوں میری بچی اللّٰہ تمہارا نصیب اچھا کرے اور تمہیں زندگی میں ہمیشہ خوش رکھے آمین۔ اس کے بعد کچھ دن گزرے تو ایک دن حاجرہ نے ججی سے کہا شازیہ کے ابو اب تو شازیہ نے پڑھائی بھی مکمل کر لی ہے اب ہمیں اس کے ہاتھ پیلے کر دینے چاہئیں۔ ججی نے کہا ہاں میں بھی کچھ دنوں سے یہی سوچ رہا ہوں لیکن آج کل کے دور میں اچھے اور پڑھے لکھے لڑکوں کے رشتے ملنا بہت ہی زیادہ مشکل ہے کیونکہ ہماری بیٹی پڑھی لکھی ہے اس وجہ سے اس کا ہمسفر بھی پڑھا لکھا ہی ہونا چاہیئے تاکہ وہ ایک دوسرے کو اچھے سے سمجھ سکیں ۔ حاجرہ نے کہا اگر آپ کہیں تو میں کسی رشتے کرانے والی سے بات کروں ججی نے کہا ہاں کر لو پر لڑکا ہماری بیٹی شازیہ کی طرح ہی پڑھا لکھا اور ہونہار ہونا چاہیے ۔ حاجرہ نے کہا ہاں ہاں میں سمجھ گئی۔ یہ کہہ کر ججی کمرے میں چلا گیا اتنے میں قمر ہاتھ میں ایک پیپر لے کر گھر آیا اور ججی کو سلام کرنے کے بعد بولا ابو یہ دیکھو مجھے نوکری مل گئی ہے یہ سنتے ہی ججی نے اللّٰہ کا شکر ادا کیا اور پیپر کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ارے بیٹا یہ کیا ہے میں تو پڑھا لکھا نہیں ہوں تم ہی بتا دو کیا لکھا ہے؟؟ قمر نے کہا ابو میں نے ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں جاب کے لیئے اپلائی کیا تھا تو انہوں نے مجھے انڑویو کے بلایا تھا اور آج انہوں نے مجھے پھر سے بلایا اور جب میں وہاں گیا تو انہوں نے مجھے بتایا کہ انہوں نے مجھے جاب پر رکھ لیا ہے یہ اسی کا لیڑ ہے ۔ اب کل سے میں جاب پر جاؤں گا ۔ ابھی ججی اور قمر یہ باتیں کر رہے تھے کہ وہاں شازیہ بھی آگئی قمر نے فوراً شازیہ کی طرف دیکھتے ہوئے پیپر شازیہ کو دیا اور کہا آپی یہ دیکھو۔ شازیہ نے پیپر پڑھا اور وہ بہت خوش ہوئی اور ججی کی طرف دیکھتے ہوئے بولی ابو بھائی کو نوکری مل گئی ہے ججی کی آنکھوں میں آنسوں تھے اور ججی نے بنا بولے ہی ہاں میں سر ہلا دیا اور بولا دیکھا بیٹی اب وہ کاندھا میرے ساتھ مل چکا ہے اب تمہیں بالکل بھی فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔ قمر نے ججی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ابو آپ رو کیوں رہے ہیں ۔ ججی نے کہا ارے پگلے یہ تو خوشی کے آنسوں ہیں یہ کہتے ہوئے ججی نے قمر اور شازیہ کو گلے سے لگا لیا اتنے میں حاجرہ بھی کمرے میں آئی اور ججی نے اپنی آنکھوں سے آنسوں صاف کرتے ہوئے جلدی میں قمر کی جاب کا لیڑ حاجرہ کو دیکھاتے ہوئے کہا حاجرہ یہ دیکھو ہمارے قمر کو اچھی جگہ نوکری مل گئی ہے حاجرہ نے بھی خوشی سے قمر کا ماتھا چومتے ہوئے اسے دعائیں دی اور پھر شازیہ کے سر پر بھی ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا ماشاءاللہ اب میری بچی کی شادی بھی ہم دھوم دھام سے کریں گے ۔ حاجرہ کی یہ بات سن کر شازیہ حاجرہ کے گلے لگ کر رونے لگی ۔ حاجرہ نے کہا ارے نا بیٹی نا روتے نہیں ہیں اب تو ہماری خوشیوں کے دن آنے والے ہیں ۔ ججی نے کہا انشاء اللّٰہ انشاء اللّٰہ ضرور ۔ پھر کچھ مہینوں کے بعد ایک روز ججی نے حاجرہ سے کہا یار بہت سے رشتے دیکھے ہیں پر پتا نہیں کیوں شازیہ کے لیئے کوئی رشتہ نہیں مل پا رہا حاجرہ نے کہا آپ بھی تو ہر بار دیکھ کر کہتے ہو لڑکے میں یہ نہیں ہے لڑکا ایسا ہے ویسا ہے اب تو رشتے والی نے بھی کہہ دیا ہے کہ اپنی بیٹی کے لیئے آپ خود ہی رشتہ ڈھونڈو میں نے تو جتنے رشتے دیکھانے تھے دیکھا چکی اب مجھے معاف کرو ۔ ججی نے کہا ہاں یہ تو ہے ۔ حاجرہ نے کہا میں تو اب شازیہ کو لے کر بہت پریشان ہو رہی ہوں پتا نہیں کیا لکھا ہے اس کے نصیب میں ۔ ججی نے کہا دیکھو تم دل نہ چھوٹا کرو اللّٰہ بہتر کرے گا ۔ یہ کہہ کر ججی کام پر چلا گیا اور وہاں بیٹھ کر سوچ میں پڑ گیا ۔ جب ججی کے مالک نے ججی کو ایسے سوچ میں پڑے ہوئے دیکھا تو اس نے ججی کے کاندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا ارے کیا بات ہے ججی تم ایسے کیوں بیٹھے ہوئے ہو سب خیریت تو ہے؟ ججی نے مالک کی طرف دیکھتے ہوئے کہا نہیں آغا صاحب کچھ نہیں ہے میں تو بس ایسے ہی اپنے گھر کی الجھنوں میں گھرا ہوا تھا آغا صاحب نے کہا یار کیا پریشانی ہے آج سے پہلے میں نے تمہیں کبھی ایسے نہیں دیکھا ۔ ججی نے کہا کچھ نہیں جناب بس ایسے ہی ۔ آغا صاحب نے کہا ارے بھئی تم میرے پاس بہت سالوں سے کام کر رہے ہو پر میں نے ہمیشہ تمہیں اپنا چھوٹا بھائی سمجھا ہے تو اس لحاظ سے تمہیں کیا پریشانی ہے یہ جاننا میرا حق بنتا ہے۔ تو اب سیدھے سے بتاؤ کیا الجھنیں ہیں تمہاری ؟؟ ہو سکتا ہے میں تمہاری الجھنوں کو سلجھانے میں تمہاری کوئی مدد کر سکوں ۔ ججی نے کہا آغا صاحب میری بیٹی کو تو آپ جانتے ہیں۔ آغا صاحب نے کہا ہاں ہاں کیا ہوا شازیہ بیٹی کو ؟؟ ججی نے کہا میں نے اس کی پڑھائی مکمل کرا لی ہے پر اس کے مطابق کوئی رشتہ نہیں مل پا رہا میں نے بہت سے لڑکے دیکھے ہیں پر کوئی نا کوئی کمی رہ جاتی ہے اس وجہ سے مجھے ڈر ہے کہیں میری بیٹی گھر میں پڑی بوڑھی نا ہو جائے اور لیکن اس کے ساتھ میں یہ بھی نہیں چاہتا کہ میں جلد بازی میں اس کا ہاتھ کسی ایسے شخص کے ہاتھ میں دے دوں جس کے بعد میں مجھے پچھتاوا ہو ۔ آغا صاحب نے کہا اچھا تو یہ بات ہے ؟ ججی نے کہا جی آغا صاحب اور میں بس اسی وجہ سے پریشان ہوں ۔ آغا صاحب نے ججی سے پوچھا اچھا ججی تم کیا چاہتے ہو لڑکا کیسا ہونا چاہیئے ؟ ججی نے کہا ہر باپ کی طرح میری بھی یہی خواہش ہے کہ لڑکا پڑھا لکھا ہونہار ہو اور شکل صورت اور سیرت بھی اچھی ہو اور سب سے بڑھ کر یہ کہ لڑکا کسی نشے وغیرہ کا عادی نہ ہو اور نیک ہو ۔ آغا صاحب نے کہا اگر ایسا لڑکا تمہیں مل جائے تو کیا تم اپنی بیٹی کا ہاتھ اس کے ہاتھ میں دے دو گے ؟ ججی نے جلدی سے آغا صاحب کا ہاتھ پکڑ کر کہا جی آغا صاحب آپ بتائیں مجھے ایسا لڑکا کہاں ملے گا ؟؟ آغا صاحب نے کہا اچھا یہ بتاؤ کہ تم اپنی بیٹی کو جہیز میں کیا کیا دو گے ؟؟ ججی نے جلدی سے کہا آغا صاحب میرے سے جو بن پڑا میں دونگا میں اپنی زندگی کی ساری جمع پونجی اس کو دے دونگا اس کے علاوہ میرے بیٹے قمر نے محنت کر کے اس کے جہیز کا سارا سامان مکمل کر لیا ہے اور سونے کے زیورات میری بیوی نے اس کے لیئے رکھے ہیں ہم وہ سب کچھ اپنی بیٹی کو دے دیں گے۔ آغا صاحب نے کہا بس اتنا ہی ؟؟ ججی نے افسردہ ہو کر کہا آغا صاحب اس کے علاوہ ہمارے پاس اور کچھ نہیں ہے اس کو دینے کے لیئے ۔ ججی کی یہ بات سن کر آغا صاحب زور زور سے ہنسنے لگے ۔ اور ججی مایوسی بھرے انداز سے آغاز صاحب کی طرف دیکھنے لگا ۔ پھر آغا صاحب نے کہا ارے بدھو میں مزاق کر رہا تھا ہمیں تمہاری بیٹی دعاؤں کے ساتھ چاہیئے نا کہ جہیز جیسی لعنت کہ ساتھ ۔ یہ سنتے ہی ججی نے چونک کر کہا کیا۔۔۔ ؟؟ آغا صاحب میں سمجھا نہیں ؟؟ آغا صاحب نے کہا ارے میرے بھائی جیسا لڑکا تم ڈھونڈ رہے ہو ویسا ہی لڑکا میرے پاس ہے میرا بیٹا نعمان ۔ ججی نے کہا کیا ؟؟ نعمان آپ کا بیٹا وہ جو باہر پڑھنے گیا ہوا تھا ؟؟ آغا صاحب نے کہا ہاں اور اب وہ ایم بی اے مکمل کر کے واپس پاکستان آرہا ہے اور وہیں کی ایک ملٹی نیشنل کمپنی نے اسے پاکستان میں جاب بھی دلا دی ہے ۔ اور پتا ہے جب ہم نے اسے کہا کہ بیٹا واپس آؤ گے تو آتے ہی ہم نے تمہاری شادی کرا دینی ہے تو اس نے کہا جی پاپا آپ کو جو ٹھیک لگے آپ کر لینا پھر ہم نے اسے پوچھا ہمیں بتا دینا تمہیں کیسی لڑکی سے شادی کرنی ہے تو اس نے کہا پاپا آپ جیسا مناسب سمجھیں ڈھونڈ لیجئے گا بس لڑکی پڑھی لکھی ہونی چاہیئے اور سلجھی ہوئی ہو باقی جیسا آپ چاہیں ویسا کریں ۔ تو ججی اس وجہ سے میں نے تم سے کہا کہ جیسا داماد تم ڈھونڈ رہے ہو ویسا داماد تمہیں آغا صاحب کے پاس ہی ملے گا ۔ آغا صاحب کی یہ بات سن کر ججی تو خوشی سے پاگل ہو گیا وہ بار بار آغا صاحب کا ہاتھ پکڑ کر چومنے لگا اور کہنے لگا آغا صاحب آپ نے واقعی میں میری الجھن سلجھا دی ۔ پھر ججی نے آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے اپنی آنکھیں بند کرکے اللّٰہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا اور آغا صاحب سے کہنے لگا آغا صاحب کیا مجھے کچھ دیر کے لیئے چھٹی مل سکتی ہے میں بس کچھ ہی دیر میں واپس آتا ہوں ۔ آغا صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا ہاں ہاں میں جانتا تھا جاؤ ہو کر آجاؤ گھر سے ۔ یہ سنتے ہی ججی نے خوشی میں پھر سے آغا صاحب کے ہاتھ چومے اور جلدی سے گھر کی طرف جانے لگا اور آغا صاحب کافی دیر تک اس کی طرف دیکھتے ہوئے مسکراتے رہے اور پھر بولے اللّٰہ اس کی تمام مشکلات کو حل کرنا ماشاءاللہ آج یہ بہت خوش ہے ۔ یہ کہہ کر آغا صاحب اپنے کام میں مصروف ہو گئے ۔ ججی نے گھر جاتے ہی حاجرہ کو آواز دی اور حاجرہ بھاگتی ہوئی ججی کے پاس آئی تو ججی حاجرہ کے دونوں ہاتھوں کو پکڑ کر صحن میں جھومنے لگا ۔ حاجرہ بھی حیرت سے اس کی طرف دیکھتے ہوئے مسکرانے لگی اور بولی کیا ہوا سب خیریت تو ہے آج کیا ہو گیا ہے آپ کو ؟؟ ۔ تو ججی نے رک کر ایک لمبی سانس لی اور بولا کہ آج میں نے اپنی بیٹی کے لیئے ایک شہزادہ ڈھونڈ لیا ہے ۔ حاجرہ نے حیرت سے کہا کیا۔۔؟؟ ججی نے کہا ہاں حاجرہ آج میں نے اپنی بیٹی کے لیئے لڑکا ڈھونڈ لیا ہے ۔ حاجرہ نے کہا اچھا تو بتاؤ وہ کون ہے کیا کرتا ہے اور آپ نے اسے کہاں دیکھ لیا ؟؟ پھر ججی نے حاجرہ کو نعمان کے بارے بتایا اور وہ سب باتیں بھی بتائی جو ججی اور آغا صاحب کے درمیان ہوئیں تھیں ۔ یہ سب سن کر حاجرہ کے چہرے پر بھی خوشی چھا گئی اور اس نے بھی اللّٰہ کا شکر ادا کیا ۔ پھر ججی سے پوچھا کہ نعمان کب تک پاکستان آجائے گا ججی نے کہا جلدی ہی آنے والا ہے پھر ہم سب اسے دیکھنے کے لیئے آغا صاحب کے گھر جائیں گے ۔ حاجرہ نے کہا ہاں انشاء اللّٰہ ۔ یہ کہہ کر ججی واپس دوکان پر چلا گیا اور آغا صاحب سے کہنے لگا آغا صاحب آپ لوگ شازیہ کب کو دیکھنے آئیں گے ؟؟ آغا صاحب نے کہا ارے بھئی اس میں دیکھنا کیا ہے شازیہ ہماری بیٹی ہے اور ہماری آنکھوں کے سامنے پلی بڑھی ہے دیکھا تو غیروں کو جاتا ہے وہ تو ہماری اپنی ہے اور ایک راز کی بات بتاؤں ؟؟ ججی نے کہا جی جی آغا صاحب بتائیں آغا صاحب نے کہا یاد ہے ایک بار میں اور میری بیوی عید پر تمہارے گھر آئے تھے ؟؟ ججی نے کہا جی جی آئے تھے ۔ آغا صاحب نے کہا اور اسی دن ہی میری بیوی نے جب شازیہ کو دیکھا تھا تو اس نے مجھے کہا تھا کہ آغا صاحب یہ لڑکی مجھے بہت پسند آئی ہے ماشاءاللہ بہت خوبصورت اور پڑھی لکھی ہے کیوں نہ ہم اپنے نعمان کے لیئے اس کا ہاتھ مانگ لیں تو میں نے اپنی بیوی سے کہا تھا ابھی ہمیں اس بارے میں جلدی نہیں کرنی چاہیئے جب نعمان پڑھائی مکمل کر کے واپس آئے گا تو ہم پھر اس کے بارے میں سوچیں گے کیونکہ ہمیں نعمان سے بھی اس بارے میں بات کرنی ہے ۔ تو اس وجہ سے ہم لوگ اب تک رکے ہوئے تھے ۔ یہ سن کر ججی نے کہا تو اس کا مطلب کہ آپ اور بھابی پہلے سے ہی شازیہ کو پسند کرتے تھے ۔ آغا صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا ارے ہاں بھئی وہ تو آج تم نے خود ہی بات چھیڑ دی تو میں نے تمہیں بتا دیا ورنہ کچھ دنوں میں ہم لوگ خود ہی اس سلسلے میں تم سے بات کرنے والے تھے ۔ ججی نے کہا آغا صاحب میں بھی کتنا بدھو تھا رشتہ تو میرے پاس ہی تھا اور میں اپنی بیٹی کے لیئے رشتہ تلاش کر رہا تھا ۔ آغا صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا ارے کوئی بات نہیں کبھی کبھی ہوتا ہے ایسا پر دیر آئے درست آئے اب تم شام کو اپنے گھر سب کو تیار رکھنا ہم آج شام کو ہی تمہارے گھر آئیں گے اور تمہاری بیٹی کی رسم کر کے جائیں گے کیونکہ جب تم اپنے گھر گئے تھے تو اسی وقت میں نے اپنی بیوی کو فون کرکے یہ سب بتا دیا تھا تو تم سے زیادہ میری بیوی کو اس بات کی خوشی ہوئی تھی اور اس نے مجھے کہا کہ ہم لوگ آج ہی لڑکی کی کو انگوٹھی پہنا کر اپنی طرف سے لڑکی کی منگنی کی رسم کر جائیں گے باقی کی باتیں بعد میں ہوتی رہیں گی ۔ ججی نے کہا آغا صاحب آج تو اللہ تعالیٰ نے میری دلی خواہش پوری کر دی ہے میں ابھی گھر پر فون کرتا ہوں ۔ آغا صاحب نے کہا ارے فون کی کیا ضرورت ہے آج تمہیں چھٹی دیتا ہوں جا کر گھر میں سب کو بتاو اور شام کو منگنی کی تیاری کرو ۔ یہ کہتے ہوئے آغا صاحب نے ایک چیک ججی کو دیا اور کہا جاؤ یہ چیک کیش کرا لو اور ان پیسوں سے منگنی کی ساری تیاریاں مکمل کرو ۔ ججی نے چیک واپس آغا صاحب کو دیتے ہوئے کہا ارے آغا صاحب میں یہ پیسے نہیں لے سکتا اللّٰہ کا دیا ہوا سب کچھ ہے میرے پاس۔ آپ نے پہلے ہی مجھ پر بہت بڑا احسان کر دیا ہے اب مجھے اور کچھ نہیں چاہیئے اور میں پوری طرح تیاریاں مکمل کر لوں گا آغا صاحب نے کہا تو ٹھیک ہے پھر منگنی میں سب شامل ہونگے پر میں نہیں آؤں گا یہ سنتے ہی ججی نے گھبرا کر کہا کیوں آغا صاحب کیا ہوا ؟؟ آغا صاحب نے کہا تم میرے چھوٹے بھائی ہو پر تم مجھے اتنا غیر سمجھتے ہو یہ میں نے نہیں سوچا تھا ۔ ججی نے کہا آغا صاحب یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں میں تو کبھی خواب میں بھی یہ گستاخی نہیں کر سکتا ۔ آغا صاحب نے کہا تو پھر یہ چیک لو اور جیسا میں کہتا ہوں ویسا ہی کرو ورنہ میں تم سے ناراض ہی رہوں گا۔ کیا شازیہ صرف تمہاری ہی بیٹی ہے میری نہیں ہے ؟؟ ججی نے کہا جی جی آغا صاحب کیوں نہیں وہ آپ کی بھی بیٹی ہے ۔ آغا صاحب نے کہا پھر آج ہی میری بیٹی کو ساتھ لے کر جاؤ اور اس کو اچھے سے شاپنگ کرواؤ اور ساتھ میں باقی لوگوں کو بھی شاپنگ کراؤ ہم شام کو آرہے ہیں ۔ ججی نے کہا وہ ٹھیک ہے پر ۔۔۔ آغا صاحب نے کہا پر ور کچھ نہیں اگر اب کچھ بھی بولا تو میں ناراض ہو جاؤں گا یہ چیک پکڑو اور جلدی جاؤ اب وقت کم ہے ۔ ججی نے شرماتے ہوئے چیک پکڑ لیا اور گھر چلا گیا اور گھر جا کر سب کو ساری بات بتائی اور حاجرہ نے کہا ٹھیک ہے پھر ہمیں جلدی ہی سارے انتظامات کرنے ہونگے ججی نے کہا تم لوگ تیار ہو کر جلدی میرے ساتھ چلو مجھے راستے میں بینک بھی جانا ہے ۔ اور کچھ ہی دیر میں سب ججی کے ساتھ چلے گئے ججی نے چیک کیش کروایا اور پھر سب کو اچھے سے شاپنگ کرائی اور گھر میں سب کے ساتھ مل کر سجاوٹ اور کھانے پینے کا انتظام بھی کر لیا اور شام تک ساری تیاریاں مکمل کرلیں اس دوران شازیہ نے اپنی کچھ سہیلیوں کو بھی فون کر کے تقریب میں شرکت کے لیئے بلا لیا اور قمر نے بھی آفس کے کچھ دوستوں کو بلا لیا اور پورے گھر میں چہل پہل ہو گئی ۔ پھر ججی نے آغا صاحب کو فون کیا تو انہوں نے کہا ہم بس کچھ ہی دیر میں پہنچے والے ہیں ۔ پھر ججی نے حاجرہ سے پوچھا کیا شازیہ تیار ہو گئی ہے حاجرہ نے کہا ہاں وہ کب کی تیار ہو گئی ہے اور اپنی سہیلیوں کے ساتھ بیٹھی ہوئی ہے ۔ ابھی ججی اور حاجرہ باتیں کر ہی رہے تھے کہ اتنے میں باہر سے گاڑی کے ہارن کی آواز سنائی دی ججی جلدی سے باہر گیا تو دیکھا کہ ایک بڑی سی گاڑی میں سے کچھ لوگ اتر رہے ہیں اور اسی وقت ایک اور گاڑی آگئی اس میں سے آغا صاحب اور ان کی بیوی اترے ججی نے جلدی سے جا کر انھیں سلام کیا تو آغا صاحب نے فوراً ججی کو گلے سے لگایا اور ججی کے سجے ہوئے گھر کو دیکھ کر بولے ماشاءاللہ بہت اچھا انتظام کیا ہے ۔ ججی نے کہا جی یہ سب اللّٰہ کی مہربانی اور آپ کی کوشش سے ہوا ہے آغا صاحب نے کہا ارے نہیں میں نے کچھ نہیں کیا یہ سب میری بیٹی شازیہ کا نصیب ہے اب چلو ہمیں ہماری بیٹی کے پاس لے چلو ۔ ججی نے کہا جی جی آجائیں آپ ہی کا گھر ہے ۔ اس کے بعد سب لوگوں نے شازیہ کی منگنی کی رسم کی اور کھانا وغیرہ کھایا پھر کچھ دیر ہلا گلا کرنے کے بعد سب مہمان واپس چلے گئے اور شازیہ کی شادی کی تاریخ رکھ کر چلے گئے ۔ اس دن ججی من ہی من بہت خوش ہو رہا تھا اور شازیہ سمیت سب گھر والے بھی بہت خوش تھے پھر کچھ وقت ایسے ہی گزرا اور نعمان پاکستان آگیا ۔ پھر آغا صاحب نے ججی اور اس کے گھر والوں کو دعوت پر بلایا اور نعمان سے ملوایا نعمان واقعی میں بہت شریف پڑھا لکھا ہونہار بہت خوبصورت اور سلجھا ہوا لڑکا تھا حاجرہ نے نعمان کو دیکھنے کے بعد ججی سے کہا شازیہ کے ابو آپ نے واقعی میں اپنی بیٹی کے لیئے شہزادہ ڈھونڈا ہے ۔ ججی نے پھر سے آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے اللّٰہ کا شکر ادا کیا اور پھر ججی نے آغا صاحب سے کہا آغا صاحب کیا ہم بھی اپنی طرف سے نعمان کو انگوٹھی پہنا سکتے ہیں آغا صاحب نے کہا ہاں ہاں کیوں نہیں اب یہ آپ کا بیٹا ہے آپ جیسا مناسب سمجھیں آپ کر سکتے ہیں تو حاجرہ نے جلدی سے ایک سونے کی انگوٹھی اپنے پرس سے نکالی اور نعمان کو پہنا دی ۔ اور پھر نعمان کی نظر اتارتے ہوئے اپنی آنکھ سے تھوڑا سا کاجل انگلی پر لگا کر نعمان کے کان کے پیچھے لگا دیا یہ دیکھ کر آغا صاحب اور آغا صاحب کی بیوی بہت خوش ہوئے ۔ اس کے بعد ججی اپنی فیملی کے ساتھ واپس گھر آگیا اور پھر کچھ ہی دن کے بعد 20 جنوری دو ہزار اٹھارہ کو نعمان اور شازیہ کی شادی ہو گئی اس دن سب بہت خوش تھے اور جب شازیہ کی رخصتی ہوئی تو ججی بہت رویا اور روتے ہوئے ایک کرسی پر بیٹھ گیا اتنے میں حاجرہ ججی کے پاس آئی اور کہنے لگی آپ یہاں کیوں بیٹھ گئے ہیں چلیں اب گھر جا کر بیٹھتے ہیں ججی نے کہا ہاں بس میں بھی اٹھنے ہی والا تھا پر میں شازیہ کے بارے میں سوچ رہا تھا پتا ہی نہیں چلا کب وہ بڑی ہوگئی اور آج دیکھو وہ اپنے گھر چلی گئی حاجرہ نے کہا یہ تو ایک دن ہونا ہی تھا اور آپ نے اپنا فرض ادا کیا ہے اس لیئے آپ کو تو خوش ہونا چاہیئے کیونکہ ہماری بیٹی کو ایک شہزادہ بیاہ کر لے گیا ہے آپ دیکھنا نعمان ہماری بیٹی کو بہت خوش رکھے گا ججی نے آنکھوں سے آنسوں صاف کرتے ہوئے کہا ہاں چلو اب گھر چلتے ہیں ۔ یہ کہہ کر ججی حاجرہ کے ساتھ گھر آگیا پھر شادی کے بعد شازیہ نعمان کے ساتھ کبھی کبھی ججی اور حاجرہ سے ملنے آیا جایا کرتی تھی اور وقت ایسے ہی گزرتا چلا گیا اور پھر ایک سال کے قریب شازیہ کے گھر بیٹا پیدا ہوا اور یہ خبر سن کر سب بہت خوش تھے اور بیٹے کی پیدائش کے ایک ماہ بعد ہی شازیہ اپنے بیٹے کو ساتھ لے کر نعمان کے ساتھ ایک مٹھائی کا ڈبہ لیئے ججی اور حاجرہ سے ملنے آئی تو حاجرہ نے حیرانی سے شازیہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا بیٹی یہ کیا کیا تم نے تمہیں سوا مہینے سے پہلے گھر سے باہر نہیں نکلنا چاہیئے تھا اور تم ایسے رات کے وقت یہاں آگئ ہو ؟؟ شازیہ نے کہا ارے امی اب اس میں کیا برائی ہے میں گھر میں بور ہو رہی تھی تو آمنہ آنٹی (یعنی نعمان کی امی) نے نعمان سے کہا کہ اسے کچھ دیر کے لیئے باہر لے جاؤ اور پھر نعمان نے کہا چلو تمہاری امی کے گھر چلتے ہیں تو ہم فیصل (یعنی شازیہ کا بیٹا) کو لے کر آپ سے ملنے آگئے ہیں اور آپ ہمیں ڈانٹ رہی ہیں ابھی شازیہ حاجرہ سے بات ہی کر رہی تھی کہ ججی بھی آگیا اور اس نے آتے ہی کہا ارے ماشاءاللہ آج تو چاند کے ٹکڑے گھر میں آگئے ہیں اور یہ کہتے ہوئے ججی نے شازیہ کے سر پر ہاتھ پھیرا اور نعمان کو گلے لگایا پھر فیصل کو اپنی گود میں لے کر حاجرہ کی طرف دیکھتے ہوئے بولا ارے بھئی بیٹی اور داماد آیا ہے اور تم نے ابھی تک ان کو باہر صحن میں ہی کھڑا کیا ہوا ہے حاجرہ نے کہا شازیہ کے ابو اس وقت شازیہ کو گھر سے باہر نہیں نکلنا چاہیئے تھا اور ویسے بھی نعمان کے گھر کا راستہ پرانے قبرستان کے پاس سے ہو کر گذرتا ہے اور ایسے میں ان کا یوں باہر آجانا مجھے کچھ ٹھیک نہیں لگ رہا اور ابھی تو شازیہ نے سوا مہینہ بھی پورا نہیں کیا ۔ ججی نے حاجرہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ارے یہ تم کیا کہہ رہی ہو ابھی تو رات کے آٹھ بجے ہیں اور تم تو ایسے کہہ رہی ہو جیسے یہ لوگ رات 2 بجے گھر سے نکلنے ہیں اور ویسے بھی یہ ان کا گھر ہے جب چاہے آئیں جائیں اس میں کیا پریشانی ہے اور یہ اپنی پرانی باتیں اپنے پاس ہی رکھو۔۔۔ اتنے میں نعمان نے حاجرہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا آنٹی آپ اطمینان رکھیں ہمیں کچھ نہیں ہونے والا ہم پہلے بھی ایک دو بار گھر سے باہر جا چکے ہیں ۔ حاجرہ نے کہا پر بیٹا ۔۔ ابھی حاجرہ کچھ کہنے ہی والی تھی کہ ججی نے حاجرہ کی بات کاٹتے ہوئے کہا ارے یار اب چھوڑو یہ سب باتیں اور انہیں اندر لے کر چلو حاجرہ نے ججی کی طرف دیکھتے ہوئے بنا بولے ہی نا میں گردن گھمائی اور شازیہ اور نعمان کو کمرے میں لے گئی پھر شازیہ اور نعمان کے لیئے چائے وغیرہ کا بندوست کرنے لگی اتنے میں ججی اپنا نواسا گود میں اٹھائے حاجرہ کے پاس آیا اور بولا ارے تم کیا کر رہی تھی داماد گھر آیا تھا تو تم انہیں اندر بیٹھانے کی بجائے باہر کھڑے رکھ کر پرانے زمانے کی باتیں سنا رہی تھی ؟ وہ کیا سوچے گا ؟؟ حاجرہ نے کہا آپ کو تو ہر وقت میری باتیں بری ہی لگتی ہیں آپ کو یہ کیوں نہیں پتا لگ رہا کہ شازیہ نے ابھی (چھلا) ( یعنی نفاس کا غسل) نہیں نہایا اور ایسے میں اس کا گھر سے باہر نکلنا خطرے سے خالی نہیں ہے اور ویسے بھی یہ لوگ اس پرانے قبرستان کے قریب سے ہو کر آتے جاتے ہیں اس وجہ سے مجھے ڈر لگا رہتا ہے کہیں کوئی انہونی نا ہو جائے۔ تحریر دیمی ولف ۔ ججی نے کہا ارے یار ایک تو یہ تمہارے پرانے زمانے کی باتیں میرا دماغ خراب کر دیتی ہیں تم یہ کیوں بھول رہی ہو شازیہ اور نعمان پڑھے لکھے ہیں اور وہ ان سب باتوں پر یقین نہیں رکھتے اور نا ہی مجھے ان باتوں میں کوئی سچائی نظر آتی ہے اس لیئے اب یہ فضول کی باتیں بند کرو اور جلدی سے چائے لے کر چلو کمرے میں۔ میں بھی فیصل کو لے کر کمرے میں جا رہا ہوں ۔ یہ کہہ کر ججی فیصل کو کھلاتے ہوئے کمرے میں چلا گیا ۔ اور تھوڑی دیر میں حاجرہ چائے وغیرہ لے کر آگئی پھر ججی نے فیصل کو حاجرہ کو پکڑاتے ہوئے کہا حاجرہ یہ لو اب اپنے نواسے کو پکڑو اور مجھے چائے پینے دو ۔ویسے بھی میرا نواسا مجھ پر ہی گیا ہے۔ حاجرہ نے کہا نہیں جی اس کی آنکھیں تو بالکل میرے جیسی ہیں اس لیئے یہ اپنی نانی پر ہی گیا ہے ۔ شازیہ اور نعمان یہ سب دیکھ کر بہت خوش ہو رہے تھے اور تھوڑی دیر کے لیئے حاجرہ کی فکر بھی کم ہو گئی تھی ۔ پھر کچھ دیر گپ شپ کرنے کے بعد نعمان کے موبائل کی گھنٹی بجی تو نعمان نے موبائل کی طرف دیکھ کر کہا امی کی کال ہے اور اس کے ساتھ ہی نعمان نے کال اٹھائی اور اپنی امی سے بولا جی جی امی ہم بس واپس ہی آرہے ہیں جی آرہے ہیں ۔ یہ کہہ کر نعمان نے کال کاٹ دی اور شازیہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا اب ہمیں چلنا چاہیئے امی پریشان ہو رہی ہیں ۔ شازیہ نے کہا جی جی چلیں اس کے بعد ججی نے کہا ٹھیک ہے بچو اب تم کسی روز دن میں آنا تاکہ ہم ڈھیروں گپ شپ کریں گے نعمان نے کہا جی انکل ہم ضرور آئیں گے اس کے بعد نعمان اور شازیہ نے ججی اور حاجرہ سے اجازت لی اور فیصل کو گود میں لیا اور باہر گاڑی کے پاس گئے تو اتنے میں حاجرہ نے شازیہ کو آواز دی ذرا رکو شازیہ۔۔۔ شازیہ رک کر حاجرہ کی طرف دیکھنے لگی اور حاجرہ جلدی سے واپس گھر کے اندر گئی اور پھر ایک لہسن کی گٹھی ہاتھ میں پکڑ کر واپس شازیہ کے پاس آئی اور وہ لہسن کی گٹھی شازیہ کو دیتے ہوئے بولی بیٹا یہ پاس رکھ لو جب تم لوگ گھر پہنچو گے تو یہ لہسن باہر پھینک دینا اور پھر گھر میں چلے جانا ۔ حاجرہ کی یہ بات سن کر سب حیرانی سے حاجرہ کی طرف دیکھنے لگے اس دوران شازیہ کبھی لہسن کی طرف دیکھتی اور کبھی حاجرہ کی طرف دیکھتے ہوئے بولی امی یہ کیا چکر ہے اب ؟؟ حاجرہ نے کہا اس لہسن کی خوشبو تمہیں بلاؤں سے محفوظ رکھے گی اور نعمان بیٹا رستے میں آئیت الکرسی پڑھتے ہوئے جانا نعمان نے جی ٹھیک ہے آنٹی ۔ ججی نے حاجرہ سے کہا اچھا ٹھیک ہے اب ان کو جانے بھی دو پہلے ہی وہ لیٹ ہو رہے ہیں ۔ اس کے بعد شازیہ اور نعمان وہاں سے اپنے گھر کی طرف روانہ ہو گئے ۔ نعمان گاڑی چلاتے ہوئے شازیہ کے ہاتھ میں لہسن کی گٹھی پکڑے دیکھ کر ہنسنے لگا۔ شازیہ نے نعمان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔ کیا ہوا آپ ہنس کیوں رہے ہیں ؟؟ نعمان نے کہا کچھ نہیں بس ایسے ہی یہ لہسن تمہارے ہاتھ میں دیکھ کر مجھے ہنسی آگئی ۔ شازیہ نے لہسن کی طرف دیکھا اور پھر نعمان کی طرف دیکھتے ہوئے بولی مجھے بھی اس لہسن کو دیکھ کر تھوڑا عجیب سا محسوس ہو رہا ہے بھلا یہ کیسے ہمیں کسی بلا سے بچا سکتا ہے دوسرا اس کی خوشبو سے میرا تو دماغ ہی خراب ہو رہا ہے ۔ نعمان نے کہا ایک بات کہوں برا تو نہیں مانو گی ؟؟ شازیہ نے کہا نہیں نہیں آپ کہیں کیا کہنا چاہتے ہیں؟ ۔ نعمان نے کہا ویسے آج کل کے دور میں بھی تمہاری امی بہت پرانے زمانے کی باتوں پر یقین رکھتی ہیں ۔ شازیہ نے کہا ہاں ان کی تعلیم بہت کم ہے نا اس وجہ سے وہ ذرا عجیب خیالات کی ہیں ۔ یہ تو ابو کی مہربانی ہے کہ انھوں نے مجھے پڑھایا ورنہ میں بھی امی کی ان عجیب سی باتوں پر یقین کر لیتی ویسے بھی دو ہزار انیس آنے والا ہے اور امی ہیں کہ ابھی تک پینسٹھ کے زمانے کی باتیں کر رہی ہیں ۔ نعمان نے کہا جب میں انگلینڈ میں تھا تو اس وقت میں نے بہت سی عورتوں کو دیکھا تھا جو کہ اپنے ایک دن کے بچے کے ساتھ پارکس میں واک کرتیں تھیں ۔ اگر ایسی کوئی بات ہوتی تو وہ لوگ بھی گھر سے باہر نہیں نکلتے ۔ کیونکہ وہ لوگ ہم سے زیادہ کیئر فل رہتے ہیں۔ شازیہ نے کہا ہاں اسی وجہ سے تو میں بھی ان پرانی باتوں پر یقین نہیں کرتی ۔ یہ کہتے ہوئے شازیہ نے گاڑی کے دروازے کا شیشہ کھولا اور لہسن کی گٹھی گاڑی سے باہر پھینک دی ۔ نعمان نے شازیہ کی طرف دیکھا اور ہنستے ہوئے بولا کیا ہوا ؟؟ ارے بلا سے بچانے والا فارمولہ باہر پھینک دیا ہے۔۔۔؟ شازیہ نے بھی ہنستے ہوئے گاڑی کا شیشہ بند کیا اور نعمان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ہاں اس کی خوشبو سے میرے دماغ کو چڑھ رہی تھی ۔ نعمان نے کہا میں بھی تم سے یہی کہنے ہی والا تھا کہ دیکھو پوری گاڑی میں لہسن کی مہک پھیل گئی ہے اور میرا دماغ بھی اس سے خراب ہو رہا ہے ۔ اچھا کیا جو تم نے پھینک دیا ۔ اب کوئی بھی بلا شلا کو ہم خود دیکھ لیں گے ۔ ابھی نعمان اور شازیہ یہ باتیں ہی کر رہے تھے کہ اتنے میں اچانک گاڑی کا ٹائر پھٹ گیا اور نعمان نے جلدی سے گاڑی روک لی شازیہ نے گھبراتے ہوئے کہا کیا ہوا ہے یہ آواز کیسی تھی ؟ نعمان نے کہا ارے کچھ نہیں ہوا گاڑی کا ٹائر پھٹ گیا ہے یہ اس کی آواز تھی ۔ شازیہ نے ایک لمبی سانس لی اور پھر نعمان کی طرف دیکھتے ہوئے بولی اب کیا کریں گے ؟؟ نعمان نے کہا ارے کرنا کیا ہے بس دس منٹ میں ٹائر تبدیل کر کے چل پڑیں گے ۔ یہ کہتے ہوئے نعمان گاڑی سے نیچے اترا اور آس پاس دیکھنے لگا شازیہ ابھی بھی گاڑی میں ہی بیٹھی ہوئی تھی اور شازیہ نے ڈرائیور والی سائیڈ کے دروازے کا شیشہ نیچے کیا اور اس نے اندر سے ہی نعمان کو کہا یہ آپ یہاں وہاں کیا دیکھ رہے ہو ؟ نعمان نے مسکراتے ہوئے کہا ارے کیا قسمت ہے ہماری گاڑی کا ٹائر بھی بالکل قبرستان کے پاس آکر پھٹا ہے اور اگر یہاں تمہاری امی ہوتی تو وہ یہی کہتی کہ یہ سب لہسن پھینکنے کی وجہ سے ہوا ہے ۔ یہ کہتے ہوئے نعمان زور زور سے ہنسنے لگا ۔ شازیہ نے عجیب سا منہ بنا کر کہا اچھا اب آپ میری امی کا مذاق مت اڑائیں اور جلدی سے ٹائر بدلیں بہت ٹھنڈ ہو رہی ہے آپ بیمار ہو جائیں گے ۔ نعمان نے کہا اچھا بابا بدل رہا ہوں یہ کہہ کر نعمان نے گاڑی کی ڈگی کھولی اور اس میں سے ایک ٹائر اور باقی کے ٹولز نکالے اور گاڑی کے نیچے جیک لگا کر اسے اٹھانے لگا ۔ اس دوران شازیہ گاڑی میں بیٹھی فیصل کو دیکھ رہی تھی ۔ نعمان نے گاڑی کو جیک سے اٹھایا اور اس کا پھٹا ہوا ٹائر کھولنے لگا لیکن ٹائر کے بولڈ ( یعنی پیچ) بہت ٹائیٹ تھے جو کھل نہیں رہے تھے نعمان نے بولڈ پر پانا ( یعنی پیچ کھولنے والا آلہ) ڈال کر چھوڑا اور کھڑا ہو کر اس پر زور سے اپنا پاؤں مارا جس کی وجہ سے بولڈ تو کھل گیا پر پانا جھٹکے سے نکل کر گاڑی کے نیچے چلا گیا ۔ نعمان نے خود سے کہا ارے کیا مصیبت ہے اور یہ کہتے ہوئے گاڑی کے نیچے سے ہاتھ ڈال کر پانا نکالنے لگا تو اچانک گاڑی کے نیچے سے نعمان کا ہاتھ کسی چیز نے پکڑ لیا نعمان نے بہت مشکل سے جھٹکا مار کر اپنا ہاتھ چھڑایا اور اسی وقت اٹھ کر گاڑی سے دور ہٹ کر کھڑا ہوگیا گیا اور ڈر سے کانپتے ہوۓ اپنے ہاتھ کو دیکھنے لگا اور پھر گاڑی کے نیچے دیکھنے لگا لیکن وہاں کھڑے رہ کر اس کو گاڑی کے نیچے کچھ نظر نہیں آرہا تھا اس لیئے وہ وہیں بیٹھ کر ہی اپنی گردن کو جھکا کر گاڑی کے نیچے دیکھنے لگا اتنے میں شازیہ نے فیصل کی طرف سے نظر ہٹا کر نعمان کی طرف دیکھا تو اچانک شازیہ کے رونگٹے کھڑے ہو گئے اس نے دیکھا کہ نعمان گاڑی سے دور ہٹ کر بیٹھا ہوا ہے اور اس کے پیچھے ہی کوئی چمکتی ہوئی آنکھوں والی کوئی ڈراؤنی سی عورت کھڑی ہوئی ہے اور نعمان اس سے بے خبر ہو کر گاڑی کے نیچے دیکھنے میں مصروف ہے۔ یہ دیکھ کر شازیہ ڈر سے کانپنے لگی اور اس نے اپنی کانپتی ہوئی انگلی سے اس عورت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ڈری ہوئی آواز میں کہا نعمان۔۔۔۔ نعمان نے بیٹھے ہوئے ہی چونک کر شازیہ کی طرف دیکھا تو شازیہ کی نظروں اور اس کی انگلی کا رخ نعمان کے پیچھے کی طرف تھا ۔ نعمان نے کانپتے ہوئے ہی اپنی گردن پیچھے کی طرف گھمائی لیکن نعمان کو کچھ نظر نہیں آیا نعمان جلدی سے اٹھ کر گاڑی کے پاس گیا اور اپنا ایک ہاتھ گاڑی کی چھت پر رکھ کر دروازے سے اندر جھانک کر شازیہ سے پوچھنے لگا کیا ہوا۔۔؟ کیا تھا وہاں ؟؟ شازیہ کی آنکھیں کھلی کی کھلی اور منہ بھی کھلے کا کھلا رہ گیا تھا اور اس کی انگلی کا اشارہ اب بھی اسی طرف تھا اور اس کی انگلی برے طریقے سے کانپ رہی تھی ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے شازیہ ایک ہی جگہ پر جام ہوگئی ہے نعمان نے ایک بار پھر سے اس طرف دیکھا جہاں شازیہ اشارہ کر رہی تھی پر وہاں کچھ نہیں تھا اتنے میں نعمان نے شازیہ کے ہاتھ کو پکڑ کر ہلایا اور پھر سے پوچھا کیا ہوا تمہیں ۔۔ ؟؟؟ تم بول کیوں نہیں رہی ؟؟ یہ کہتے ہوئے جب نعمان نے دوبارہ شازیہ کو ہلایا تو شازیہ نے ایک دم چونک کر نعمان کی طرف دیکھا اور پھر گھبراہٹ میں کبھی اس جگہ کی طرف دیکھتی اور کبھی نعمان کی طرف دیکھتے ہوئے بولی وہ ۔۔۔ وہاں ۔۔ وہ ۔۔ نعمان نے کہا ہاں ہاں کیا تھا وہاں ؟؟ شازیہ نے کہا وہ وہاں آپ کے پیچھے کوئی ڈراؤنی سی عورت کھڑی تھی آپ جلدی سے گاڑی میں آجائیں پلیز۔۔ آپ گاڑی میں آجائیں جلدی مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے ۔ نعمان نے پھر سے ڈرے ہوئے انداز میں اپنی کانپتی ہوئی گردن واپس اس طرف گھما کر دیکھا لیکن وہاں اب بھی کوئی نہیں تھا ۔ تو نعمان نے شازیہ سے کہا دیکھو وہاں کوئی نہیں ہے ۔ شازیہ نے کہا پر میں نے وہاں کسی عورت کو دیکھا تھا آپ میرا یقین کرو ۔ نعمان نے کہا اچھا ٹھیک ہے پر ہم یہاں رک نہیں سکتے اس کے لیئے مجھے ٹائر تو بدلنا ہو گا نا ؟ شازیہ نے کہا کیا آپ ایسے ہی گاڑی نہیں چلا سکتے یہاں سے باہر نکل کر ٹائر بدل لینا یہ جگہ بہت ڈراؤنی ہے ۔ نعمان نے کہا یار اگر پیچھے والا ٹائر پھٹا ہوتا تو میں تمہاری بات مان لیتا پر یہ آگے والا ٹائر پھٹا ہے اس وجہ سے ہم ایسے گاڑی نہیں چلا سکتے پہلے ہی گاڑی بہت مشکل سے کنٹرول کر کے روکی تھی ۔ شازیہ نے کہا آپ گھر میں کسی کو فون کر کے بلا لیں نعمان نے کہا ارے کیا ہو گیا ہے تمہیں تھوڑا حوصلہ رکھو میں کر لوں گا ٹائر چینج ۔ اب تم آرام سے بیٹھی رہو اور فیصل کا خیال رکھو باقی میں کر لوں گا ۔ یہ کہہ کر نعمان واپس گاڑی کے پاس بیٹھ گیا اور موبائل کی لائٹ جلا کر گاڑی کے نیچے دیکھنے لگا اور اسے پانا نظر آگیا نعمان نے پھر سے ڈرتے ہوئے پانا پکڑنے کی کوشش کی تو پانا اس کے ہاتھ سے دور تھا اس وجہ سے نعمان گاڑی کے نیچے گھس گیا اور پانا پکڑ کر واپس باہر نکلنے لگا تو اچانک سے نعمان کی کمر پر شدید وزن سا آگیا جس کی وجہ سے نعمان گاڑی کے نیچے سے باہر نہیں نکل پا رہا تھا نعمان نے بہت کوشش کی پر وزن بہت زیادہ تھا اس وجہ سے نعمان نے گھبرا کر زور زور سے شازیہ کو آواز دینے لگا جب شازیہ نے نعمان کی آواز سنی تو جلدی سے گھبراتے ہوئے گاڑی سے باہر نکلی اور نعمان کی طرف گئی تو دیکھا کہ نعمان گاڑی کے نیچے پھنسا ہوا تھا شازیہ نے جلدی سے فیصل کو زمین پر لیٹا دیا اور نعمان کی ٹانگوں کو پکڑ کر باہر کی طرف کھینچنے لگی لیکن نعمان بری طرح سے پھنسا ہوا یہ دیکھتے ہوئے شازیہ نے گاڑی کے نیچے لگے ہوئے جیک کے ہینڈل کی طرف دیکھا تو اس نے جلدی سے اس ہینڈل کو گھومایا جس سے گاڑی اوپر کی طرف اٹھ گئی پھر شازیہ نے دوبارہ نعمان کی ٹانگوں کو پکڑ کر باہر کی طرف کھینچا تو نعمان گاڑی کے نیچے سے باہر نکل آیا اور نعمان نے باہر نکلتے ہی شازیہ سے پوچھا میری کمر پر کون بیٹھا ہوا تھا شازیہ نے کہا کوئی نہیں تھا آپ گاڑی کے نیچے پھنس گئے تھے۔ نعمان نے کہا یہ کیسے ہو سکتا ہے ابھی تو گاڑی کافی اونچی تھی ایسا لگتا ہے جیسے گاڑی کے جیک سے کسی نے چھیڑ چھاڑ کی ہے ورنہ میں نیچے نا پھنستا ۔ اتنے میں شازیہ ادھر اُدھر دیکھ کر بولی فیصل۔۔۔۔ فیصل ؟؟ نعمان نے کہا کیا ہوا فیصل کو ۔۔ شازیہ زور زور سے چلانے لگی فیصل۔۔۔۔۔ اور رونے لگی ۔۔۔ نعمان نے جلدی سے اٹھ کر گاڑی میں دیکھا تو فیصل گاڑی میں نہیں تھا نعمان نے شازیہ کو جھنجھوڑ کر پوچھا فیصل کہاں ہے شازیہ نے روتے ہوئے کہا ابھی تو یہیں لیٹایا تھا میں نے اسے ۔۔ ۔۔فیصل ۔۔۔ فیصل ۔۔۔۔ میرا فیصل کہاں چلا گیا۔۔۔؟؟ یہ کہتے ہوئے شازیہ پاگلوں کی طرح ادھر اُدھر دیکھنے لگی اس دوران نعمان بھی گھبراہٹ میں فیصل کو ادھر اُدھر ڈھونڈنے لگا اور شازیہ بھی روتے ہوئے فیصل کا نام لیتی ہوئی قبرستان کی طرف چلے گئی اس دوران نعمان بھی فیصل کو ڈھونڈتے ہوئے گاڑی سے کافی دور چلا گیا جب اسے فیصل کہیں نظر نہیں آیا تو نعمان واپس روتے ہوئے گاڑی کی طرف آیا تو نعمان نے دیکھا کہ کو خوفناک سی عورت نعمان کی گاڑی کی چھت پر اپنی ٹانگیں لٹکائے بیٹھی ہوئی ہے نعمان روتے ہوئے اچانک چپ کر گیا اور اس عورت کو دور سے ہی کھڑا رہ کر دیکھنے لگا اور نعمان کے دیکھتے ہی وہ عورت اچانک سے غائب ہو گئی نعمان آہستہ آہستہ گاڑی کی طرف بڑھنے لگا کہ اتنے میں اچانک نعمان کو لگا کہ اس کے پیچھے پیچھے کوئی چل رہا ہے نعمان کے رونگٹے کھڑے ہو گئے اور وہ ڈر سے کانپنے لگا لیکن نعمان کی ہمت نہیں ہو رہی تھی کہ وہ پیچھے مڑ کر دیکھے اس وجہ سے نعمان آرام سے سے چلتا ہوا گاڑی کے پاس پہنچا اور گاڑی کے پاس پہنچتے ہی جب نعمان نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو وہی ڈراؤنی سی عورت اپنی ٹانگیں اوپر کی طرف کر کے اپنے ہاتھوں کے بل چلتی ہوئی نعمان کے پیچھے آرہی تھی یہ دیکھ کر نعمان دوڑ کر گاڑی میں بیٹھ گیا اور جلدی سے گاڑی کے شیشے اوپر کر کے گاڑی کے باہر دیکھنے لگا پھر اچانک گاڑی کے پیچھے والی سیٹ سے کسی بچے کے رونے کی آواز سنائی دی نعمان نے جیسے ہی گاڑی کے پیچھے والی سیٹ پر دیکھا تو نعمان حیران رہ گیا کیونکہ نعمان نے دیکھا کہ شازیہ فیصل کو اپنی گود میں لیئے گاڑی کے پیچھے والی سیٹ پر بیٹھی ہوئی تھی لیکن شازیہ کی حالت بہت عجیب لگ رہی تھی اس کے بال بکھرے ہوئے تھے اور اس کی آنکھوں کا کاجل بھی پھیلا ہوا تھا اور اس کے سر پر دوپٹہ بھی نہیں تھا نعمان نے کہا شازیہ فیصل کہاں سے ملا تمہیں۔۔۔؟؟ لیکن شازیہ نے کوئی جواب نہیں دیا بس وہ فیصل کو دیکھے جا رہی تھی نعمان نے دو تین بار شازیہ کو آواز دی پر شازیہ نے کوئی جواب نہیں دیا نعمان نے سوچا شاید شاید فیصل کے گم ہونے کی وجہ سے شازیہ کو صدمہ پہنچا ہے اس لیئے اس کی یہ حالت ہو گئی ہے ۔ یہ دیکھتے ہوئے نعمان نے جلدی سے اپنا فون نکالا اور گھر میں فون کیا تو آغا صاحب نے نعمان کا فون اٹھایا نعمان نے کہا ابو ہم بہت مشکل میں ہیں ہماری گاڑی کا ٹائر پھٹ گیا ہے اور ہم اس وقت جو ہمارے گھر سے کچھ دور قبرستان ہے وہاں کھڑے ہوئے ہیں آپ جلدی سے آجائیں آغا صاحب نے کہا تم گاڑی میں ہی رہو میں فورآ پہنچتا ہوں یہ کہہ کر آغا صاحب نے فون کاٹ دیا اور نعمان پھر سے شازیہ سے بات کرنے کی کوشش کرنے لگا لیکن شازیہ چپ چاپ بیٹھی رہی ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ کہیں کھو گئی ہے۔ نعمان نے کہا شازیہ مجھے معاف کر دو یہ سب میری وجہ سے ہوا ہے نہ میں گاڑی کے نیچے پھنستا اور نہ فیصل گم ہوتا اور نہ تمہاری یہ حالت ہوتی سچ میں میں بہت شرمندہ ہوں ابھی نعمان شازیہ سے یہ بات کر ہی رہا تھا کہ اچانک گاڑی کی چھت پر کسی کے چلنے کی آہٹ سنائی دی نعمان نے جلدی سے شازیہ کی طرف دیکھتے ہوئے اپنی انگلی اپنے ہونٹوں پر رکھ کر شازیہ کو چپ رہنے کا اشارہ کیا اور خود بھی چپ کر کے بیٹھ گیا ۔ اس دوران نعمان پوری طرح سے ڈرا ہوا تھا ۔ نعمان نے منہ میں ہی آئیت الکرسی پڑھنی شروع کی ہی تھی کہ شازیہ نے نعمان سے کہا چپ کر جاؤ ۔ نعمان نے پھر سے شازیہ کو خاموش رہنے کا اشارہ کیا اور آئیت الکرسی پڑھنے لگا تو شازیہ نے غصے سے نعمان کی طرف دیکھتے ہوئے اونچی آواز میں کہا چپ کر جاؤ یہ مت پڑھو ۔۔۔ میرا دماغ پھٹ رہا ہے چپ کر جاؤ۔۔ نعمان نے آئیت الکرسی پڑھنی بند کر دی تو شازیہ نے اپنی آنکھیں بند کر لیں اور سیٹ سے ٹیک لگا کر سونے لگی ۔ اتنے میں کہیں سے کوئی روشنی نعمان کی گاڑی پر پڑی نعمان نے جلدی سے اس روشنی کی طرف دیکھا تو نعمان کی جان میں جان آئی کیونکہ وہ روشنی آغا صاحب کی گاڑی کی تھی نعمان نے جلدی سے شازیہ کو کہا شازیہ دیکھو پاپا آگئے ہیں اٹھو شازیہ ؟؟ لیکن شازیہ عجیب عجیب سی آواز میں خراٹے مار کر سو رہی تھی ۔ اتنے میں آغا صاحب نے نعمان کی گاڑی کے شیشے پر دستک دی نعمان نے جلدی سے دروازہ کھولا تو آغا صاحب نے شازیہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا یہ شازیہ بیٹی کو کیا ہوا ہے۔۔ ؟؟ نعمان نے کہا وہ گہری نیند سو گئی ہے اٹھ نہیں رہی آغا صاحب نے کچھ دیر شازیہ کی طرف دیکھا اور نعمان سے کہا چلو پھر اب اپنی گاڑی کو یہیں پر لاک کر دو اور میری گاڑی میں بیٹھو پھر نعمان نے آغا صاحب کی مدد سے شازیہ کو اٹھا کر آغا صاحب کی گاڑی کی پیچھے والی سیٹ لٹا دیا اور فیصل کو گود میں لے کر آغا صاحب کے ساتھ بیٹھ گیا اور گھر چلے گئے جبکہ گھر پہنچے پر بھی شازیہ کو ہوش نہیں آرہا تھا بس وہ نیند میں آنکھیں بند کیئے منہ میں کچھ بول رہی تھی اور نعمان کے گھر والے حیرت سے شازیہ کی طرف دیکھ رہے تھے اتنے میں نعمان کی امی نے کہا اسے کیا ہوا ہے؟؟ نعمان نے بات کو گول کرتے ہوئے کہا کچھ نہیں یہ بس زرا نیند میں ہے ۔ آغا صاحب نے نعمان سے کہا مجھے سمجھ نہیں آرہا کہ تمہیں رات کو باہر جانے کس نے دیا ؟؟یہ بات سنتے ہی نعمان کی امی نے آغا صاحب سے نظریں چراتے ہوئے کہا وہ شازیہ گھر میں بور ہو رہی تھی تو میں نے نعمان سے کہا کہ اسے ذرا باہر لے جاؤ اس وجہ نعمان اس کو باہر لے گیا ۔ ابھی نعمان کی امی یہ بات کر ہی رہی تھی کہ اچانک سے شازیہ کو ہوش آگیا اور وہ اک دم سے ادھر اُدھر دیکھ کر بولی فیصل۔۔۔۔ فیصل۔۔۔ میرا فیصل کہاں ہے ؟؟ نعمان نے شازیہ کو پکڑا اور بولا فیصل یہیں ہے میں نے اسے کمرے میں سلایا ہے شازیہ جلدی سے اپنے کمرے کی طرف بھاگی اور فیصل کو اپنی گود میں لے کر چومتے ہوئے رونے لگی ۔۔۔ نعمان اور باقی گھر والے بھی شازیہ کے پیچھے کمرے میں آگئے ۔ اتنے میں نعمان شازیہ کے پاس بیٹھ گیا اور بولا شازیہ فیصل ٹھیک ہے تم رو مت ۔ شازیہ نے نعمان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا یہ تمہیں کہاں سے ملا تھا ۔۔؟؟ کون لے کر گیا تھا اسے۔۔۔ کہاں لے کر گیا تھا ؟؟ شازیہ کی یہ بات سن کر نعمان اور اس کے گھر والے کبھی شازیہ کی طرف دیکھتے تو کبھی ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر نعمان کی طرف حیرت سے دیکھتے ۔ نعمان بھی گھبراتے ہوئے اپنے گھر والوں کی طرف دیکھ کر نظریں چرانے لگا ۔۔ اسی وقت آغا صاحب نے نعمان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔ نعمان یہ کیا معاملہ ہے ؟؟ یہ شازیہ کیا کہہ رہی ہے؟؟؟ نعمان نے نظریں جھکائے ہوئے کہا ابو ۔۔۔ وہ ۔۔ فصل کچھ دیر کے لیئے گم ہو گیا تھا ۔۔ نعمان کی یہ بات سنتے ہی آغا صاحب جلال میں آگئے اور بولے نعمان تم یہ کیا کہہ رہے ہو ؟؟ اتنے میں شازیہ بولی ابو اس میں نعمان کی کوئی غلطی نہیں ہے دراصل یہ میری لا پرواہی کی وجہ سے ہوا تھا ۔ آغا صاحب نے کہا بیٹی کسی لاپرواہی ؟؟ میں کچھ سمجھ نہیں پارہا ہوں تم لوگ کیا بات کر رہے ہو..؟ شازیہ نے کہا نعمان گاڑی کا ٹائر بدلنے لگے تھے تو ان کی کوئی چیز گاڑی کے نیچے گر گئی تھی تو اسے نکالنے کے لیئے جب نعمان گاڑی کے نیچے گئے تو پتا نہیں کیسے نعمان گاڑی کے نیچے پھنس گئے تھے اور انہوں نے مجھے آواز دی تو میں جلدی سے فیصل کو گود میں لیئے باہر آئی تو نعمان گاڑی کے نیچے پھنسے ہوئے درد سے چلا رہے تھے میں نے گھبراہٹ میں فیصل کو وہیں زمین پر لٹا دیا اور نعمان کو گاڑی کے نیچے سے نکالنے لگی اور جب نعمان گاڑی کے نیچے سے نکل گئے تو فیصل وہاں نہیں تھا اس کے بعد میں اور نعمان فیصل کو ڈھونڈنے لگے میں فیصل کو ڈھونڈتی ہوئی شاید قبرستان کی طرف گئی لیکن اچانک میرے سامنے کوئی سایہ سا آگیا اور پھر اس کے بعد کیا ہوا مجھے کچھ یاد نہیں ۔۔۔ جب مجھے ہوش آیا تو میں یہاں گھر میں تھی ۔ آغا صاحب شازیہ کی یہ بات سن کر غصے سے آمنہ کی طرف دیکھنے لگے اور بولے سن رہی ہو یہ لوگ وہاں بہت مصیبت میں تھے اور تم مجھ سے یہی کہتی رہی تھی کہ آجائیں گے اب وہ بچے تو نہیں ہیں ۔ وہ راستہ تو ویسے ہی بہت خطرناک ہے بہت سے لوگوں کے ساتھ وہاں حادثات ہو چکے ہیں ۔ اور ان لوگوں کی گاڑی وہاں خراب تھی اگر ایسے میں وہاں ان کے ساتھ کچھ اونچ نیچ ہو جاتی تو ؟؟ آمنہ نے شرمندہ ہوتے ہوئے کہا چلیں اب مجھے معاف کر دیں آغا صاحب بس میں نے بچوں کی خوشی کے لیئے ان کو باہر جانے کو کہہ دیا تھا لیکن میں نہیں جانتی تھی کہ ان لوگوں کے ساتھ یہ سب ہو جائے گا ۔ آغا صاحب نے کہا اچھا ٹھیک ہے چلو اب یہاں سے بچوں کو آرام کرنے دو ۔ یہ کہہ کر آغا صاحب نعمان کی بہن نادیہ اور آمنہ نعمان کے کمرے سے جانے لگے تو آغا صاحب اچانک رک گئے اور پلٹ کر نعمان کی طرف دیکھتے ہوئے بولے ایک منٹ نعمان جب میں تمہیں لینے کے لیئے گیا تھا تو اس وقت فیصل شازیہ کی گود میں تھا کیوں سہی کہا نا میں نے ؟؟ نعمان نے کہا جی پاپا درست کہا ہے آپ نے ۔ آغا صاحب نے کہا تو اگر فیصل گم ہو گیا تھا تو واپس شازیہ کی گود میں کیسے آگیا تھا ؟؟ نعمان نے کہا پتا نہیں ابو میں بھی شازیہ کی طرح فیصل کو ڈھونڈتا ہوا گاڑی سے کافی دور نکل گیا تھا پر جب میں واپس گاڑی کے پاس آیا تو شازیہ پہلے سے گاڑی میں موجود تھی اور فیصل اس کی گود میں تھا ۔ آغا صاحب نعمان کی بات سن کر کچھ سوچنے لگے اور پھر بولے پر شازیہ تو تم سے پوچھ رہی تھی کہ فیصل کہاں سے ملا ؟؟ نعمان نے کہا میں بھی یہی سوچ رہا تھا پاپا ۔ اتنے میں آمنہ نے کہا ہو سکتا ہے کہ شازیہ فیصل کے گم ہونے پر اپنے ہوش کھو بیٹھی ہو اور فیصل کے ملنے پر بھی اس کی حالت نہ سدھری ہو ؟؟ آغا صاحب نے کہا ہاں یہ بھی ہو سکتا ہے لیکن مجھے یہ سمجھ نہیں آرہا کہ آخر فیصل وہاں سے گیا کہاں تھا کون لے گیا تھا اسے ؟؟ آمنہ نے کہا ہاں یہ بات کی تو مجھے بھی سمجھ نہیں آرہی کہ اتنا چھوٹا بچا وہاں سے خود تو جا نہیں سکتا لازمی کوئی تو لے کر گیا ہو گا اسے ۔ اتنے شازیہ نے کہا آنٹی اب یہ سب باتوں کا کوئی فائدہ نہیں بس مجھے میرا بیٹا مل گیا میرے لیئے یہی کافی ہے یہ کہتے ہوئے شازیہ فیصل کو گود میں ہلانے لگی۔ اتنے میں نادیہ نے کہا ابو ہو سکتا ہے کوئی بچے اٹھانے والا فیصل کو لے کر جا رہا ہو اور بھابی نے جلدی سے اس کو دیکھ لیا ہو اور وہ فیصل کو وہیں چھوڑ کر بھاگ گیا ہو ؟؟ آغا صاحب نے نادیہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ہاں یہ بھی ممکن ہے ۔ لیکن مجھے اب بھی لگ رہا ہے کہ جیسے کچھ اور بھی ہے جو کہ ہمیں سمجھ نہیں آرہا خیر شازیہ سہی کہہ رہی ہے ہمارا فیصل سہی سلامت ہمارے پاس ہے یہ ہی بہت ہے اب سب چلو یہاں سے ان لوگوں کو آرام کرنے دو ۔ یہ کہہ کر آغا صاحب آمنہ اور بیٹی نادیہ کے ساتھ نعمان کے کمرے سے باہر چلے گئے اور باہر جاتے ہی آغا صاحب اپنے ہونٹوں کو پکڑتے ہوئے کچھ سوچنے لگے اتنے میں آمنہ نے آغا صاحب کی طرف دیکھتے ہوئے کہا آپ کیا سوچ رہے ہیں اب ؟؟ آغا صاحب نے کہا مجھے لگتا ہے جیسے نعمان اور شازیہ ہم سے کچھ چھپانے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن کیا چھپا رہے ہیں اور کیوں چھپا رہے ہیں یہ نہیں پتا ۔ آمنہ نے کہا وہ بیچارے کیا چھپائیں گے انہوں نے ایک ایک بات تو تفصیل سے بتا دی ہے اب کیا ہے ان کے پاس بتانے کے لیئے ۔ آغا صاحب نے کہا پر میں ابھی بھی سمجھ نہیں پارہا آخر فیصل کے ساتھ ہوا کیا تھا اور کس نے کیا تھا کیونکہ ایک بار میں اس راستے سے گزر رہا تھا تو ایسے ہی ایک حادثہ میری آنکھوں کے سامنے پیش آیا تھا ۔ آمنہ نے حیرت سے کہا کیسا حادثہ ؟؟ آغا صاحب نے کہا جس جگہ پر نعمان کی گاڑی کا ٹائر پھٹا تھا ٹھیک اسی جگہ ایک آدمی اور ایک عورت مجھے نظر آئے تھے ان کی موٹر سائیکل ایک سائیڈ پر گری ہوئی تھی اور وہ پاگلوں کی طرح روتے ہوئے کسی کو ڈھونڈ رہے تھے ۔ میں نے گاڑی ان کے پاس جا کر روکی اور میں نے ان سے پوچھا کیا ماجرا ہے آپ لوگ کون ہیں اور آدھی رات کو اس ویران علاقے میں کس کو ڈھونڈ رہے ہیں ؟ تو وہ آدمی روتے ہوئے بولا پتا نہیں کیا ہو رہا ہے ہمارے ساتھ میری بائیک چلتے ہوئے اچانک بند ہو گئی میں اتر کر دیکھ رہا تھا کہ بائیک کیوں بند ہو گئی اس دوران میری بیوی اور تین سال کی بچی میرے پاس کھڑے تھے اتنے میں ہمیں کوئی عجیب سی آواز سنائی دی میں اور میری بیوی چونک کر اُس طرف دیکھ رہے تھے کہ اتنے میں اچانک ہماری بچی پتا نہیں کہاں چلے گئی ہم لوگ اسے ہی ڈھونڈ رہے ہیں پر وہ ہمیں کہیں نظر نہیں آرہی پتا نہیں کہاں چلے گئی ۔ آغا صاحب نے کہا میں نے گاڑی سے اتر کر ان کے ساتھ ان کی بچی کو تلاش کرنے کی کوشش کی لیکن ان کی بچی مجھے کہیں نظر نہیں آئی اور حیرت تو تب ہوئی جب میں ان کی بچی کو ڈھونڈتا ہوا واپس ان لوگوں کے پاس گیا تو وہاں کوئی بھی نہیں تھا نا تو وہ آدمی کہیں دکھائی دیا اور نا ہی ان بائیک نظر آرہی تھی یہ دیکھتے ہی میں گھبرا گیا اور جلدی سے اپنی گاڑی میں بیٹھ کر گھر آگیا تھا اس رات مجھے نیند نہیں آئی تھی میں انہی کے بارے میں ہی سوچتا رہا کہ آخر وہ لوگ کون تھے اور اچانک کہاں غائب ہو گئے تھے ۔ اتنے میں آمنہ نے کہا کہیں آپ یہ اس وقت کی بات تو نہیں کر رہے جب آپ رات کو بار بار اٹھ کر کمرے سے باہر جا رہے تھے ؟؟ آغا صاحب نے کہا ہاں یہ اسی دن کی بات ہے ۔ آمنہ نے کہا پر آپ نے اس دن مجھے یہ بات کیوں نہیں بتائی تھی آغا صاحب نے کہا میں کیا بتاتا جبکہ مجھے خود سمجھ نہیں آرہا تھا کہ میرے ساتھ کیا ہوا ہے اور ایسے میں اگر میں تمہیں کچھ بتاتا تو خامخواہ تم بھی پریشان ہو جاتی اور میں نہیں چاہتا تھا کہ میری طرح تمہاری بھی نیند اڑ جائے ۔ آمنہ نے کہا پتا نہیں وہ کون لوگ تھے اور وہاں کس مقصد کیلئے کھڑے ہوئے تھے آپ ایسے ہی ہر کسی کی مدد کے لیئے مت رکا کریں کیا پتا وہ کوئی چور ڈاکو ہوں یا کوئی واردات کرنے کے لیئے کھڑے ہوں ۔ آغا صاحب نے ایک لمبی سانس لی اور بولے پتا نہیں کیا چکر تھا چلو اب چل کر سوتے ہیں رات بہت ہو گئی ہے اور مجھے دوکان کے لیئے بھی جانا ہوتا ہے تو میری آنکھ نہیں کھلتی پھر ۔ یہ کہہ کر آغا صاحب آمنہ اور نادیہ سونے کے لیئے چلے گئے اور جب رات کے تقریباً تین ساڑھے تین کا وقت تھا تو اچانک نعمان کی آنکھ کھلی تو وہ ڈر سے تھر تھر کانپنے لگا کیونکہ جیسے ہی اس کی آنکھ کھلی تو اس کے چہرے کے بالکل پاس ہی شازیہ کا چہرہ تھا اور وہ آنکھیں پھاڑے اور بنا پلکیں جھپکے نعمان کو دیکھ رہی تھی ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ نعمان کو پہلی بار دیکھ رہی ہو ۔ نعمان بھی کانپتے ہوئے اس کو دیکھ رہا تھا لیکن نعمان کے منہ سے آواز نہیں نکل رہی تھی اور وہ سردی میں بھی پسینے سے بھیگ گیا تھا نعمان نے کافی دیر تک اپنی آنکھیں بند کرکے رکھیں پر جب بھی نعمان آنکھیں کھولتا تو شازیہ کو ویسے ہی دیکھتا پھر نعمان نے کمبل کے اندر منہ کر کے آئیت الکرسی پڑھنی شروع کردی کہ شازیہ اچانک سے چیخی اور نعمان سے دور ہو گئی ۔ اب نعمان سمجھ گیا تھا کہ شازیہ کے ساتھ کوئی نہ کوئی مسلہ ضرور ہے لیکن نعمان نے اپنا منہ کمبل میں ہی رکھا اور سو گیا ۔ اگلے دن جب صبح نعمان کی آنکھ کھلی تو اس نے فوراً شازیہ کی طرف دیکھا تو شازیہ کمرے میں نہیں تھی اور فیصل بھی کمرے میں نہیں تھا نعمان اٹھ کر واشروم گیا تو اسے واشروم کے فرش پر بہت ساری مٹی نظر آئی جو کہ ایسی لگ رہی تھی جیسے کسی نے خود لا کر واشروم میں ڈال دی ہو نعمان واشروم سے باہر آیا اور کمرے سے باہر چلا گیا جہاں شازیہ اور باقی سب لوگ بیٹھ کر ناشتہ کر رہے تھے فیصل آمنہ کی گود میں تھا نعمان نے شازیہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا شازیہ ہمارے واشروم میں مٹی کہاں سے آئی ہے ؟؟ شازیہ نے کہا کونسی مٹی کیسی مٹی ؟ نعمان نے کہا جب ناشتہ کر کے جاؤ گی تو دیکھ لینا ۔ یہ کہہ کر نعمان دوسرے واشروم میں چلا گیا پھر کچھ دیر کے بعد نعمان واشروم سے باہر آیا اور بیٹھ کر ناشتہ کرنے لگا اس دوران نعمان کی نظر شازیہ پر پڑی تو شازیہ چائے کی پیالی میں چمک گھماتے ہوئے کسی سوچ میں پڑی تھی یہ دیکھ کر نعمان نے کہا کیا سوچ رہی ہو ؟؟ شازیہ نے نعمان کی بات پر توجہ ہی نہیں دی اور ویسے ہی سوچ میں ڈوبی رہی۔ نعمان نے شازیہ کی طرف دیکھتے ہوئے ہی اپنی گردن کو نہ میں ہلایا اور واپس ناشتہ کرنے لگا ۔ آمنہ نے یہ سب دیکھا تو اس نے شازیہ سے کہا بیٹی کیا ہوا کیا سوچ رہی ہو ؟؟ نعمان تمہیں بلا رہا ہے ؟؟ لیکن شازیہ نے آمنہ کی بات بھی نہیں سنی اور شازیہ جوں کی توں رہی اتنے میں آمنہ نے شازیہ کا ہاتھ پکڑ کر اسے ہلایا تو شازیہ چونکتے ہوئے بولی جی جی کیا ہوا آنٹی ؟؟ آمنہ نے کہا بیٹی خیر تو ہے کس سوچ میں ڈوبی ہوئی ہو ؟؟ شازیہ نے کہا کچھ نہیں آنٹی بس ایسے ہی۔ پر کیا ہوا ہے ؟؟ آمنہ نے کہا ہوا تو کچھ نہیں ہے پر مجھے لگتا ہے کہ تمہاری طبیعت کچھ ٹھیک نہیں ہے میں بات کیا کر رہی ہوں اور تم جواب کیا دے رہی ہو ؟؟۔ شازیہ نے کہا نہیں نہیں آنٹی ایسی بات نہیں ہے میں ٹھیک ہوں بس تھوڑا سر میں درد ہے ایسا لگ رہا ہے جیسے میں پوری رات سوئی نہیں ہوں ۔ شازیہ کی یہ بات سنتے ہی نعمان نے فوراً شازیہ کی طرف دیکھنے لگا اور بولا تو اب جا کر سو جاؤ ویسے بھی تمہاری وجہ سے میں بھی ٹھیک سے سویا نہیں ہوں میرا بھی سر بھاری ہو رہا ہے ۔ آمنہ نے کہا اگر ایسا ہے تو نعمان تم بھی آج آرام کر لو اور آفس کل چلے جانا نعمان نے کہا نہیں نہیں امی میں ٹھیک ہوں ابھی اتنی بھی طبیعت خراب نئی کہ میں آفس سے چھٹی کر لوں ۔ یہ کہتے ہوئے نعمان نے چائے کا کپ ہاتھ میں پکڑا اور اپنے کمرے میں چلا گیا اور اس کے پیچھے شازیہ بھی کمرے میں آگئی نعمان نے شازیہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا یار پروین (یعنی کام کرنے والی ) کو بلوا کر یہ واشروم بھی صاف کروا لینا ذرا واشروم کا دروازا کھول کر دیکھو اندر کتنی مٹی ہے ۔ شازیہ نے واشروم کا دروازا کھولا تو دیکھا کہ اندر کوئی مٹی نہیں تھی شازیہ نے وہیں کھڑے رہ کر نعمان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا یہاں تو کوئی مٹی نہیں ہے دیکھیں بالکل صاف ہے واشروم ۔ نعمان نے چائے کا کپ سائیڈ پر رکھا اور واشروم کی طرف بڑھتے ہوئے بولا یہ کیسے ہوسکتا ہے اور جیسے ہی نعمان نے واشروم کے اندر نظر ڈالی تو وہاں کوئی مٹی نہیں تھی اور واشروم پوری طرح سے صاف تھا ۔ نعمان سر کھجاتے ہوئے بولا یہ کیسے ممکن ہے ابھی تو یہاں بہت ساری مٹی پڑی ہوئی تھی شازیہ نے کہا اگر مٹی تھی تو کہاں چلے گئی آپ سے پہلے تو ابھی کوئی آیا بھی نہیں ہے اس کمرے میں ۔ مجھے لگتا ہے آپ کو کوئی وہم ہو گیا ہو گا ۔ نعمان نے واشروم کے فرش کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ہاں شاید ایسا ہی ہے ۔ اتنے میں آمنہ نے شازیہ کو آواز دی تو شازیہ آمنہ کی بات سننے کمرے سے باہر چلی گئی ۔ اور نعمان آفس کے لیئے تیار ہو گیا نعمان شیشے میں دیکھ کر اپنی ٹائی سہی کر رہا تھا کہ اچانک نعمان شیشے کو قریب سے دیکھنے لگا اور پھر پلٹ کر اپنے بیڈ کو دیکھنے لگا تو نعمان کے پورے بیڈ پر وہی واشروم والی مٹی پڑی ہوئی تھی نعمان نے وہیں کھڑے رہ کر فوراً شازیہ کو آواز دی اور کہا جلدی یہاں آؤ اور کچھ ہی پل میں شازیہ فیصل کو گود میں لیئے کمرے میں آئی نعمان نے شازیہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا تم کہہ رہی تھی نا میرا وہم ہے تو یہ دیکھو بیڈ پر کیا ہے یہ کہتے ہوئے نعمان نے بیڈ کی طرف اشارہ کیا تو شازیہ نے بیڈ پر نظر ڈالی تو بولی کیا ہے بیڈ پر ؟؟ نعمان نے جیسے ہی بیڈ پر دوبارہ دیکھا تو بیڈ پر کوئی مٹی نہیں تھی ۔ یہ دیکھ کر نعمان ہکا بکا رہ گیا اور اپنے دونوں ہاتھ اپنے سر پر رکھ کر بیڈ کی طرف دیکھتے ہوئے بولا یہ میرے ساتھ کیا ہو رہا ہے کہیں میں پاگل تو نہیں ہو رہا ؟؟ شازیہ نے کہا یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں ۔ نعمان نے کہا ابھی جب میں نے دیکھا تھا تو بیڈ پر وہی مٹی پڑی تھی جو کچھ دیر پہلے باتھ روم میں دیکھی تھی لیکن جیسے ہی میں نے تمہیں آواز دی تو اچانک یہ دیکھو اب بیڈ پر مٹی کا کوئی نام و نشان نہیں ہے ۔ شازیہ نے کہا آج آپ آفس نہ جائیں کیونکہ مجھے آپ کی طبیعت ٹھیک نہیں لگ رہی ۔ نعمان نے کہا نہیں یار مجھے آفس جانا ہے کیونکہ اگر میں گھر میں کچھ اور پل رکا تو میں واقعی میں پاگل ہو جاؤں گا ۔ یہ کہہ کر نعمان نے فیصل کے ماتھے پر چوما اور آفس کے لیئے چلا گیا اور شازیہ وہیں کھڑی رہ کر مسکرانے لگی اور پھر شازیہ نے بیڈ کی طرف دیکھا تو مٹی بیڈ پر ہی پڑی ہوئی تھی اور شازیہ اسی مٹی بھرے بیڈ پر فیصل کو لے کر لیٹ گئی ۔ اتنے میں آمنہ کمرے میں آئی تو اس نے شازیہ کو آرام کرتے ہوئے دیکھا تو وہ کمرے سے باہر آگئی اور دروازا بند کر دیا لیکن ابھی آمنہ دروازا بند کر کے واپس پلٹی ہی تھی کہ دروازا جھٹکے سے کھل گیا آمنہ نے فوراً پلٹ کر دیکھا تو شازیہ کے کمرے کا دروازا کھلا ہوا تھا آمنہ نے آگے بڑھ کر جیسے ہی دروازے کو بند کرنا چاہا تو اچانک دروازا جھٹ سے خود ہی بند ہو گیا۔ اور یہ دیکھ کر آمنہ ڈر گئی اور جلدی سے وہاں سے واپس صحن میں آگئی اور سہم کر ایک جگہ بیٹھ گئی اتنے میں پروین آگئی اور گھر کی صفائی ستھرائی کرنے لگی اور آمنہ اس کے ساتھ کام میں مصروف ہو گئی پھر پروین صفائی کرتی ہوئی شازیہ کے کمرے کی طرف گئی تو پروین کو شازیہ کے کمرے سے بہت ہی خوفناک سی آواز سنائی دی ایسا لگ رہا تھا کہ دو تین لوگ ایک ساتھ ایک ہی ایک ہی الفاظ بول رہے ہوں ل آواز سنتے ہی پروین ڈر گئی اور ادھر اُدھر دیکھنے لگی پھر پروین نے شازیہ کے کمرے کا دروازے پر دستک دی اور ڈری ہوئی آواز میں بولی شازیہ آپی ؟؟ لیکن کمرے سے کوئی جواب نہیں آیا ۔ پروین نے پھر سے کوشش کی پر کوئی جواب نہیں ملا ۔ پروین سوچا شاید شازیہ سو رہی ہے تو پروین وہاں سے واپس جانے کے لیئے مڑی تو پروین کو دروازے کے کھلنے کی آواز سنائی دی پروین نے فوراً پلٹ کر دیکھا تو شازیہ کے کمرے کا دروازا کھل گیا تھا پروین آہستہ آہستہ سے قدم بڑھائے شازیہ کے کمرے کی طرف جانے لگی اور جیسے ہی پروین شازیہ کے کمرے میں داخل ہوئی تو کمرے میں سوائے فیصل کے اور کوئی نہیں تھا پروین نے ادھر اُدھر دیکھتے ہوئے شازیہ کو آواز دی پر شازیہ کہیں نظر نہیں آئی اتنے میں فیصل کے رونے کی آواز آئی تو پروین جیسے ہی فیصل دیکھنے گئی تو پورے بیڈ پر عجیب سی مٹی پڑی ہوئی تھی اور فیصل اسی مٹی میں لوٹ پوٹ ہو ہوتا ہوا رو رہا تھا یہ دیکھ کر پروین نے جلدی سے اپنا دوپٹہ اپنے منہ پر رکھ کر فیصل کو اٹھانے لگی تو خوفناک سی آواز میں کسی نے غصے سے کہا یہ کیا کر رہی ہو ؟؟ پروین اک دم سے ڈر گئی اور اس کے رونگٹے کھڑے ہو گئے اور پروین نے آہستہ آہستہ سے اپنی گردن ادھر اُدھر گھماتے ہوئے دیکھا پر کمرے میں کوئی نظر نہیں آیا اتنے میں پروین کو بھاری سی آواز میں کسی کے لمبے لمبے سانس لینے کی آواز سنائی دینے لگی اور پروین نے غور کیا کہ یہ سانس لینے کی آواز اس کے سر کے اوپر سے آرہی تھی اور جیسے ہی پروین نے کانپتے ہوئے اوپر دیکھا تو پروین کی چیخیں نکل گئیں اور وہ چلاتے ہوئے شازیہ کے کمرے سے باہر بھاگ گئی اور بھاگتے ہوئے اچانک سے صحن میں گر گئی ۔ پروین کی آواز سن کر آمنہ بھی کچن سے باہر آگئی تو اس نے دیکھا کہ پروین زمین پر گری ہوئی تھی آمنہ نے جلدی سے پروین کو اٹھایا تو پروین کانتے ہوۓ شازیہ کے کمرے کی طرف رہی تھی آمنہ نے کہا پروین کیا ہوا ؟؟ تم اتنی گھبرائی ہوئی کیوں ہو ؟؟ پروین نے شازیہ کے کمرے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا وہ ۔۔۔ وہ ۔۔۔ شازیہ آپی ۔۔۔ اور پھر تیزی سے سانسیں لینے لگی ۔ آمنہ نے حیرت سے کہا کیا ہوا شازیہ کو۔۔۔۔۔۔۔؟؟ اور تم کانپ کیوں رہی ہو ؟؟ جلدی بتاؤ ؟ پروین نے کہا وہ شازیہ آپی کے کمرے میں کوئی ڈراؤنی سی عورت ہے جو پنکھے کے اوپر چڑھ کر بیٹھی ہوئی ہے اس کی شکل بہت ڈراؤنی ہے ۔ آمنہ نے شازیہ کے کمرے کی طرف دیکھا پھر پروین کی طرف دیکھتے ہوئے کہا یہ تم کیا اوٹ پٹانگ باتیں کر رہی اگر کوئی ڈراؤنی عورت ہوتی تو کیا شازیہ نا ڈر جاتی ؟؟ وہ بھی تو وہیں لیٹی ہوئی ہے۔۔۔ ؟؟ پروین نے کہا آمنہ بی بی میرا یقین کریں وہاں شازیہ آپی نہیں ہیں بس فیصل بابا سویا ہوا ہے اور وہ ڈراؤنی عورت پنکھے پر چڑھ کر بیٹھی ہوئی ہے ۔ آمنہ نے کہا ضرور تمہیں کوئی وہم ہوا ہے چلو میرے ساتھ اور دکھاؤ مجھے وہ عورت ۔ پروین نے کہا نہیں نہیں آمنہ بی بی مجھے نہیں جانا وہاں وہ بہت خوفناک عورت ہے ۔۔ آمنہ نے کہا ارے کوئی نہیں ہے وہاں تم چلو میرے ساتھ ایسے ہی تم مجھے بھی ڈرانے کی کوشش کر رہی ہو ۔ یہ کہتے ہوئے آمنہ نے پروین کی بازو پکڑی اور اسے زبردستی شازیہ کے کمرے کی طرف لے گئی اور جب آمنہ شازیہ کے کمرے کے دروازے پر پہنچی تو دروازا بند تھا آمنہ نے دروازے پر دستک دیتے ہوئے شازیہ کو آواز دی لیکن اندر سے کوئی جواب نہیں آیا ۔ اس دوران پروین نے آمنہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا دیکھا نہ آمنہ بی بی اندر شازیہ آپی نہیں ہے۔ ابھی پروین یہ بات ہی کر رہی تھی کہ اچانک سے دروازا کھلا اور شازیہ دروازے پر کھڑی تھی اور اپنے دونوں ہاتھوں سے اپنے سر کو دباتے ہوئے اس نے آمنہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا کیا ہوا آنٹی ؟؟ آمنہ نے پہلے غصے سے پروین کی طرف دیکھا اور پھر مسکراتے ہوئے شازیہ سے کہنے لگی کچھ نہیں بیٹی دراصل پروین نے کمرے میں صفائی کرنی تھی اور میں نے سوچا کہ میں اک نظر فیصل کو دیکھ لوں اس لیئے آئی تھی۔ شازیہ نے دروازے سے سائیڈ پر ہٹتے ہوئے کہا جی جی آجائیں آنٹی۔ پھر آمنہ شازیہ کے کمرے میں گئی پر پروین اب بھی باہر ہی کھڑی تھی اور اپنے دوپٹے کو دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر مسلتی ہوئی باہر سے ہی شازیہ کے کمرے کی چھت پر لگے پنکھے کی طرف دیکھنے کی کوشش کر رہی تھی ۔ اتنے میں آمنہ نے پروین کی طرف دیکھتے ہوئے کہا اب آجاؤ باہر کیوں کھڑی ہو۔۔۔؟؟؟ تو پروین آہستہ آہستہ سے کمرے میں داخل ہوتی ہوئی چھت کی طرف دیکھ رہی تھی اور جیسے ہی پروین کمرے میں آئی اور اس نے پنکھے کی طرف دیکھا تو وہاں کچھ نہیں تھا اور آمنہ فیصل کو گود میں لے کر بیٹھ گئی اور پھر شازیہ کی طرف دیکھتے ہوئے بولی بیٹی اب کیسی طبعیت ہے تمہاری ؟؟ شازیہ نے کہا بس آنٹی سر میں درد ہے تھوڑا سا ۔ آمنہ نے کہا چلو پھر میں تمہیں ڈاکٹر کے پاس لیئے چلتی ہوں شازیہ نے کہا نہیں آنٹی میں ٹھیک ہو جاؤں گی ۔ کچھ دیر میں پروین نے پورے کمرے کی صفائی کر لی اور پھر آمنہ پروین کو لے کر شازیہ کے کمرے سے باہر نکل آئی تو آمنہ نے پروین سے کہا میں نے کہا تھا نا کہ کچھ اور تم مجھے ڈرانے کی کوشش کر رہی تھی ۔ پروین نے کہا نہیں آمنہ بی بی میں نے واقعی میں وہاں کسی ڈراؤنی عورت کو دیکھا تھا ۔ آمنہ نے کہا بس بس اب میں نے اور کچھ نہیں سننا اب تم اوپر کے کمرے کی صفائی کر لو تمہاری وجہ سے میں کچن کا کام چھوڑ کر آگئی تھی اب جاؤ ۔ یہ کہہ کر آمنہ کچن میں چلی گئی اور پروین اوپر کے کمرے کی صفائی ستھرائی کر کے اپنے گھر چلی گئی اور آمنہ بھی کچن سے فارغ ہو کر اپنے کمرے میں جا کر لیٹ گئی پھ دوپہر کا وقت ہوا تو نادیہ کالج سے واپس آئی اور آتے ہی اس نے اپنا بیگ رکھا اور شازیہ کے کمرے میں جانے لگی لیکن جب وہ شازیہ کے کمرے میں گئی تو شازیہ وہاں نہیں تھی بس فیصل سویا ہوا تھا نادیہ نے شازیہ کو آواز دی پر کہیں سے کوئی جواب نہیں آیا پھر نادیہ نے واشروم کا دروازا کھٹکھٹایا لیکن واشروم سے بھی کوئی آواز نہیں آئی نادیہ نے واشروم کا دروازا کھول کر دیکھا تو اندر کوئی نہیں تھا نادیہ نے سوچا شاید شازیہ امی کے کمرے میں ہے اس نے فیصل کو گود میں اٹھایا اور اپنی امی کے کمرے میں چلی گئی وہاں جا کر نادیہ نے دیکھا کہ امی سو رہی تھی نادیہ سوچنے لگی بھابی آخر فیصل کو اکیلا چھوڑ کر کہاں چلی گئی نادیہ اپنی امی کے کمرے سے باہر آئی اور شازیہ کو آواز دینے لگی ۔ اتنی میں نادیہ کو اوپر کے کمرے سے ایک عجیب سی آواز سنائی دی اور نادیہ کو لگا کہ جیسے کوئی اوپر کے کمرے میں ہے نادیہ فیصل کو گود میں لیئے اوپر کے کمرے میں گئی تو وہاں کوئی بھی نہیں تھا نادیہ کمرے سے باہر آگئی تو اسی وقت کمرے کے ساتھ والے سٹورروم سے ایک خوفناک سی آواز سنائی دی نادیہ نے فوراً ڈر کے اس سٹورروم کی طرف دیکھا تو اس کا دروازا خودبخود ہی کھل گیا نادیہ نے اس دروازے کی طرف دیکھتے ہوئے ڈری ہوئی آواز میں کہا بھابی ؟؟ بھابی ۔۔۔ لیکن سٹورروم سے کوئی جواب نہیں آیا نادیہ نے ڈرتے ہوئے وہاں سے واپس نیچے کی طرف جانا چاہا تو اچانک پھر سے سٹورروم سے کسی کے ہنسنے کی آواز سنائی دی ۔ نادیہ کو لگا کہ جیسے شازیہ اس سٹورروم میں ہے اور اس سے مذاق کر رہی ہے ۔ نادیہ نے پھر سے سٹورروم کی طرف دیکھتے ہوئے کہا بھابی پلیز مجھے ایسا مزاق پسند نہیں ہے میں بہت ڈر گئی ہوں آپ باہر آجائیں۔۔۔۔۔۔ دیکھو میری گود میں فیصل ہے اگر آپ نے مجھے ڈرانے کی کوشش کی تو فیصل میرے ہاتھ سے گر سکتا ہے تو پلیز اب باہر آجائیں لیکن سٹورروم سے پھر سے ہنسنے کی آواز آئی ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میری آپ سے گزارش ہے سٹوری پر ایک لائک ضرور کر دیا کریں اور جو لوگ جان بوجھ کر سٹوری پر لائک اور کومنٹ نہیں کرتے اور کسی بھی رائیٹر کو سپورٹ نہیں کرتے اور اس کی سٹوری پڑھنے کا شوق رکھتے ہیں ان سے میں صرف اتنا ہی کہوں گا۔۔ شرم ہوتی ہے کوئی حیا ہوتی ہے لیکن آپ میں وہ نہیں ہے۔۔
اب نادیہ کو یقین ہو رہا تھا کہ واقعی میں شازیہ اس کے ساتھ مذاق کر رہی ہے اس وجہ سے نادیہ آہستہ آہستہ سے سٹورروم کی طرف بڑھنے لگی اور کہنے لگی اب بہت ہوا بھابی اب آجاؤ باہر ؟؟ یہ کہتے ہوئے جب نادیہ نے سٹورروم میں جا کر دیکھا تو وہاں شازیہ زمین پر بالکل سیدھی لیٹی ہوئی تھی جیسے کوئی لاش پڑی ہو نادیہ نے وہیں کھڑے رہ کر شازیہ کو آواز دی پر شازیہ نے اس کی بات کا کوئی جواب نہیں دیا اور بالکل ویسے ہی لیٹی رہی نادیہ نے سٹورروم کی لائٹ جلائی تو بلب جلتے ہی بند ہو گیا۔ کیونکہ سٹورروم میں اندھیرا تھا تو اس وجہ سے نادیہ کو شازیہ کا چہرہ ٹھیک سے نظر نہیں آرہا تھا نادیہ حیرت سے شازیہ کی طرف دیکھنے لگی اور جیسے ہی نادیہ نے ایک اور قدم شازیہ کی طرف بڑھایا تو اسی وقت اچانک شازیہ بنا ہاتھوں کی مدد سے اک دم سیدھی کھڑی ہو گئی اور اس کے سارے بال اس کے چہرے پر آگئے یہ دیکھتے ہی نادیہ کے رونگٹے کھڑے ہو گئے ۔ نادیہ نے سہمی ہوئی آواز میں پھر سے شازیہ کو کہا بھابی یہ آپ کیا کر رہی ہیں ؟؟ اسی لمحے شازیہ نے اپنا ہاتھ نادیہ کی طرف بڑھایا جب نادیہ نے شازیہ کا ہاتھ دیکھا تو اس پر کافی سارا خون لگا ہوا تھا یہ دیکھتے ہی نادیہ پوری طرح سے ڈر گئی اور شازیہ کی طرف دیکھتے ہوئے آہستہ آہستہ سے اپنے قدم پیچھے لینے لگی جوں جوں نادیہ پیچھے جا رہی تھی شازیہ کا ہاتھ بھی نادیہ کے قریب آرہا تھا جبکہ شازیہ اپنی جگہ پر ہی کھڑی تھی ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے شازیہ کا ہاتھ لمبا ہو رہا ہے نادیہ شازیہ کو بھابی بھابی کرتی ہوئی پیچھے ہٹ رہی تھی اور جیسے ہی نادیہ دروازے سے باہر نکل آئی تو نادیہ نے فوراً چیخیں مار کر بھاگنا شروع کر دیا اور بھاگتے ہوئے نیچے جانے لگی اتنے میں نادیہ کی چیخیں سن کر آمنہ بھی دوڑتی ہوئی اپنے کمرے سے باہر نکلی اور اس نے نادیہ کی طرف دیکھا تو نادیہ فیصل کو گود میں لیئے سیڑھیوں سے جلدی جلدی نیچے کی طرف آرہی تھی اور اس کے پیچھے کوئی ڈراؤنی سی عورت جس کے لمبے سے ہاتھ تھے وہ سیڑھیوں پر کھڑی ہنس رہی تھی اور جیسے ہی آمنہ نادیہ کے پاس پہنچی تو وہ عورت اچانک وہاں سے واپس چلی گئی ۔ یہ سب دیکھ کر آمنہ بھی ڈر سے کانپنے لگی اس نے جلدی سے نادیہ کے ہاتھ سے فیصل کو لیا اور دونوں ماں بیٹی بھاگ کر آمنہ کے کمرے چلے گئے اور دروازے کو اندر سے بند کر لیا۔ اور نادیہ ڈر سے کانپتی ہوئی دبی ہوئی آواز میں رونے لگی آمنہ نے ایک ہاتھ سے فیصل کو گود میں لیا ہوا تھا اور دوسرے ہاتھ سے نادیہ کو اپنے گلے سے لگایا اور دونوں ماں بیٹی تھر تھر کانپ رہیں تھیں ۔ کچھ دیر گزرنے کے بعد آمنہ نے نادیہ کو پوچھا بیٹی وہ عورت کون تھی اور یہ سب کیا تھا ؟؟ مجھے تو شازیہ کی فکر ہو رہی ہے ہم دونوں یہاں ہیں اور وہ بیچاری کمرے میں اکیلی ہو گی کہیں وہ ڈراؤنی بدصورت عورت اس کے پاس نا چلی جائے ۔ نادیہ نے کانپتی ہوئی آواز میں کہا امی وہ ڈراؤنی عورت بھابی ہی تھیں ۔ آمنہ نے حیرت انگیز نظروں سے نادیہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا کیا ؟؟ یہ کیا کہہ رہی ہو بیٹی ؟؟ نادیہ نے سسکیاں لیتے ہوئے کہا ہاں امی شازیہ بھابی ہی تھی میں نے دیکھا تھا ان کو ۔ آمنہ نے کہا یہ کیسے ہوسکتا ہے بیٹی ؟؟ پھر نادیہ نے کالج سے واپس آنے کے بعد کا سارا واقع آمنہ کو سنایا تو آمنہ نے اپنے منہ پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا اس کا مطلب کہ پروین بھی جس عورت کا ذکر کر رہی تھی وہ کوئی اور نہیں بلکہ شازیہ ہی تھی ۔ نادیہ نے آمنہ کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا امی کیا ہوا تھا پروین کو ؟؟ آمنہ نے کہا ابھی بتاتی ہوں۔ یہ کہتے ہوئے آمنہ نے فیصل کی طرف دیکھا تو وہ آہستہ آہستہ سے رو رہا تھا آمنہ نے فیصل کو نادیہ کی گود میں دیا اور جلدی سے بیڈ کے سائیڈ ٹیبل کی دراز سے اپنا موبائل نکالا اور آغا صاحب کو فون کر کے انہیں فوراً گھر آنے کو کہا آغا صاحب نے کہا اچھا ٹھیک ہے میں آتا ہوں پھر آمنہ نے نعمان کو بھی فون کر کے گھر آنے کا کہا تو نعمان نے کہا امی پر سب خیریت تو ہے ؟؟ آمنہ نے کہا بس خیریت ہی نہیں ہے تم جلدی سے گھر جاؤ۔۔۔۔ نعمان نے کہا جی امی میں ابھی نکل رہا ہوں ۔ پھر آمنہ نے نادیہ کو کہا بیٹی فکر نہیں کرو تمہارے ابو اور بھائی آرہے ہیں ۔ نادیہ نے کہا امی بھابی نے میری گردن پکڑنے کی کوشش کی تھی جبکہ میں نے تو ان کا کچھ نہیں بگاڑا تھا یہ کہتے ہوئے نادیہ پھر سے رونے لگی ۔ آمنہ نے کہا بیٹی تم رو مت اور وہ تمہاری بھابی نہیں ہے بلکہ شازیہ کے اندر کوئی ہوائی چیز آگئی ہے۔ ہماری شازیہ تو بہت بھولی ہے یہ جو کچھ بھی ہو رہا ہے اسی شیطانی چیز کی وجہ سے ہو رہا ہے اسی وجہ سے میں دیکھ رہی تھی کہ شازیہ کے چہرے کی خوبصورتی اچانک سے مدھم کیسے ہونے لگی ہے اور اس کی آنکھوں کے نیچے سیاہ ہلکے پڑ رہے ہیں ۔ نادیہ نے اپنے آنسو صاف کرتے ہوئے کہا جی امی شازیہ بھابی تو بہت خوبصورت ہیں پر گزشتہ رات سے میں بھی یہی دیکھ رہی تھی ۔ اتنے میں باہر سے گیٹ کھلنے کی آواز آئی آمنہ نے کہا بیٹی لگتا ہے تمہارے ابو آگئے ہیں تم یہیں رکو میں دیکھ کر آتی ہوں پر تب تک تم کمرے کا دروازا اندر سے بند رکھنا جب تک میں تمہیں کھولنے کا نہ کہوں ۔ نادیہ نے کہا جی امی ۔ یہ کہہ کر آمنہ باہر گئی تو آغا صاحب آگئے تھے اور انہوں نے آتے ہی آمنہ سے پوچھا کیا ہوا سب خیر تو ہے ایسی کیا امرجینسی آگئی تھی جو تم نے مجھے فوراً گھر بلا لیا ہے ؟؟ آمنہ نے کہا پہلے آپ اندر چل کر بیٹھیں تو سہی بتاتی ہوں آغا صاحب گھر کے اندر آکر بیٹھ گئے پھر آمنہ نے نادیہ کو بھی باہر بلا لیا نادیہ فیصل کو گود میں لیئے باہر آئی اور آغا صاحب کو سلام کیا پھر ان کے پاس آکر بیٹھ گئی اس دوران آغا صاحب دونوں ماں بیٹی کی طرف حیرت سے دیکھ رہے تھے اور پھر بولے اب کوئی مجھے بتائے گا کہ بات کیا ہے ؟؟ میں دوکان چھوڑ کر آیا ہوں مجھے واپس بھی جانا ہے ؟؟ آمنہ نے وہ بات دراصل یہ ہے کہ شازیہ کے اوپر کسی شیطانی چیز کا سایہ ہے ۔ یہ سنتے ہی آغا صاحب حیرت سے آمنہ کی طرف دیکھتے ہوئے بولے کیا تمہارا دماغ تو ٹھیک ہے؟؟ یہ تم کیا فضول سی بات کر رہی ہو۔۔۔؟ کیا یہی بتانے کے لیئے تم نے مجھے اتنی ایمرجینسی میں بلوایا ہے ؟؟ آمنہ نے کہا میں سچ کہہ رہی ہوں شازیہ وہ نہیں ہے جو ہم سمجھ رہے ہیں گزشتہ رات سے ہی شازیہ عجیب عجیب سی حرکتیں کر رہی ہے اور آج تو اُس نے نادیہ کو بھی نقصان پہنچانے کی کوشش کی ہے ۔ آغا صاحب نے ماتھے پر بل ڈالتے ہوئے نادیہ کی طرف دیکھا اور نادیہ سے پوچھا بیٹی یہ تمہاری ماں کیا کہہ رہی ہے؟؟ نادیہ نے کہا جی پاپا امی سہی کہہ رہی ہیں ۔ شازیہ بھابی چڑیل ہیں ۔ یہ سن کر آغا صاحب نے تلخ لہجے میں کہا او کیا ہو گیا ہے تم ماں بیٹی کو ؟ تمہارے دماغ خراب ہو چکے ہیں اس لیئے تمہیں پتا ہی نہیں چل رہا تم لوگ کہہ کیا رہے ہو ؟؟ ایک بھولی بھالی لڑکی کو بدروح جن بھوت تو پتا نہیں کیا کیا کہہ رہے ہو ؟؟ نادیہ نے کہا پاپا ہم سچ کہہ رہے ہیں ۔ ابھی آمنہ اور نادیہ آغا صاحب سے بات ہی کر رہے تھے کہ اتنے میں نعمان بھی آگیا اور ان کے پاس بیٹھ گیا پھر آمنہ کی طرف دیکھتے ہوئے بولا جی امی سب خیریت تو ہے ؟؟ جو آپ نے اچانک مجھے جلدی میں بلایا ہے ؟؟ اس سے پہلے آمنہ کچھ بولتی آغا صاحب فوراً نعمان کی طرف دیکھتے ہوئے بولے کیا تمہیں بھی انہوں نے اپنی فضول باتوں کی وجہ سے بلوایا ہے ؟؟ نعمان نے حیرت سے آمنہ کی طرف دیکھا اور پھر آغا صاحب کی طرف دیکھتے ہوئے بولا ابو مجھے پتا نہیں آپ کس بات کر رہے ہیں ؟؟ آغا صاحب نے طنز کرتے ہوئے کہا یہ تمہاری امی جان اور تمہاری بہن کو لگتا ہے کہ تمہاری بیوی شازیہ نہیں بلکہ کوئی شیطانی چیز ہے یہ سنتے ہی نعمان آمنہ کی طرف حیرانی سے دیکھنے لگا ۔ آمنہ نے آغا صاحب کی طرف دیکھتے ہوئے کہا یہ آپ بات کو الجھا کیوں رہے ہیں ایک بار ہماری پوری بات تو سن لیں۔ آغا صاحب نے کہا تمہاری بات ہی فضول ہے تو میں نے سن کر کیا لینا ہے ۔ نعمان نے آمنہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا اچھا امی بتائیں آپ کیا کہنا چاہتی ہیں میں آپ کی بات سننا چاہوں گا ۔ آغا صاحب نے نعمان سے کہا بیٹا یہ لوگ فضول قسم کی عجیب وغریب باتیں کر رہے ہیں تم کیا کرو گے ان کی بات سن کر؟؟ نعمان نے آغا صاحب کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ایک منٹ پاپا پلیز مجھے امی کی بات سننے دیں ۔ نعمان کی یہ بات سن کر آغا صاحب نے ایک کہکا لگایا اور اپنے ماتھے کو پکڑ کر بیٹھ گئے اور نعمان سے بولے سن لو بیٹا تم بھی اپنا شوق پورا کر لو ۔ نعمان نے آمنہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا امی میں سن رہا ہوں آپ بولیں اس کے بعد آمنہ نے نعمان کو ساری بات بتائی پروین کے ساتھ ہونے والا واقع اور پھر نادیہ کے ساتھ ہوئے واقعے کے بارے میں بتایا پھر نادیہ نے بھی وہ سب کچھ بتایا جو کہ نادیہ کے ساتھ ہوا ۔ نعمان نے آمنہ اور نادیہ کی باتیں سنی اور اپنے گال پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کچھ سوچنے لگا ۔ آغا صاحب نے نعمان سے کہا ارے تم کیا ان کی فضول باتوں میں آکر اپنے دماغ پر زور ڈال رہے ہو ؟؟ نعمان نے کہا پاپا امی اور نادیہ سہی کہہ رہے ہیں میں ان کی بات سے اتفاق کرتا ہوں شازیہ میں کچھ تو ہے پھر نعمان نے آغا صاحب کو اپنی گزشتہ رات والی بات بتائی اور پھر صبح کمرے میں مٹی کی بات بتائی تو آغا صاحب نے کہا کیا؟؟؟ یہ بات تم نے مجھے پہلے کیوں نہیں بتائی۔۔؟ نعمان نے کہا پاپا بات ہی اتنی عجیب سی تھی کہ میں نے اس کو اپنا وہم سمجھ کر کسی سے بات نہیں کی ۔ آغا صاحب نے کہا اچھا تو ٹھیک ہے ابھی پتا چل جائے گا بلاؤ زرا شازیہ کو نعمان نے نادیہ سے پوچھا اس وقت شازیہ کہاں ہے ؟؟ نادیہ نے کہا میں نے اسے اوپر کے سٹورروم میں دیکھا تھا آمنہ نے کہا اب کا ہمیں پتا نہیں وہ کہیں بھی ہو سکتی ہے۔ اتنے میں اچانک شازیہ اپنے کمرے سے بھاگتی ہوئی آئی اور آتے ہی اس نے فیصل کو آمنہ کی گود میں دیکھا تو اس نے ایک گہری سانس لی اور پھر نعمان اور آغا صاحب کی طرف دیکھتے ہوئے بولی آپ لوگ آج جلدی آگئے سب خیریت تو ہے ؟؟ یہ سنتے ہی نعمان نے کہا شازیہ تم سلام کرنا بھول گئی ہو کیا ؟؟ ابو امی بیٹھے ہیں کم سے کم انہیں تو سلام کرنا چایئے تھا تمہیں ؟؟ شازیہ نے گھبراتے ہوئے کہا اوہ سوری دراصل میں جب سو کر اٹھی تو میں نے فیصل کو دیکھا تو وہ بیڈ پر نہیں تھا اس وجہ سے میں تھوڑی گھبرا گئی تھی اسی گھبراہٹ میں مجھے یاد نہیں رہا ۔ آغا صاحب نے شازیہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا کوئی بات نہیں بیٹی ایسے ہو جاتا ہے کبھی کبھی اور سناؤ کیسی طبعیت ہے تمہاری ؟؟ شازیہ نے کہا جی انکل اب بہتر ہے ۔ آغا صاحب نے کہا بیٹی تم صبح سے سورہی تھی کیا ؟؟ شازیہ نے کہا جی انکل ۔ پھر آغا صاحب نے کہا کیا تم اوپر سٹورروم میں گئی تھی ؟؟ شازیہ نے کہا نہیں تو ؟؟ انکل میں کیوں جاؤں گی سٹورروم میں ؟؟ کیا کچھ ہوا ہے سٹورروم میں۔۔؟ یہ کہتے ہوئے شازیہ بالکل انجان تھی جیسے اس کو کچھ پتا ہی نہیں ہے ۔ آغا صاحب نے کہا نہیں بیٹی کچھ نہیں ہوا ۔ یہ کہتے ہوئے آغا صاحب نے آمنہ اور باقی لوگوں کی طرف دیکھا آمنہ نے بنا بولے ہی اپنی گردن نہ میں ہلا دی ۔ اور پھر آمنہ نے کہا ٹھیک ہے بیٹی تم فیصل کو لے جاؤ اور اسے سمبھالو دیکھو اس کو بھوک وغیرہ تو نہیں لگی ابھی یہ رو رہا تھا ۔ شازیہ نے کہا جی آنٹی ۔ یہ کہہ کر شازیہ فیصل کو لے کر اپنے کمرے میں چلی گئی ۔ پھر آغا صاحب نے کہا دیکھو تم سب جو کہہ رہے ہو مجھے اس پر اب بھی یقین نہیں ہو رہا لیکن اگر ایسا ہے تو یہ ہمارے لیئے لمحہ فکریہ ہے آمنہ نے آغا صاحب کو کہا ہمارا یقین کریں ہم سب سچ بول رہے ہیں ۔ آغا صاحب نے کہا اچھا ٹھیک ہے لیکن ابھی کوئی بھی شازیہ سے اس بارے میں بات نہیں کرے گا ۔ میں کسی بابا کو جانتا ہوں کل اس کو لے کر آؤں پھر وہی بتائے گا کیا ماجرہ ہے ۔آمنہ نے کہا میں کھانا لگاتی ہوں آغا صاحب نے کہا نہیں مجھے ضروری کام سے جانا ہے تم لوگ کھا لو یہ کہہ کر آغا صاحب چلے گئے پھر باقی لوگوں نے کھانا کھایا اور اپنے کاموں میں مصروف ہو گئے نعمان بھی کھانا کھا کر فیصل کو گود میں لے کر تھوڑی دیر کے لیئے چھت پر چلا گیا عصر کی نماز ہو چکی تھی اور چھت پر دھوپ کم ہو چکی تھی جس کی وجہ سے ٹھنڈ بڑ رہی تھی نعمان فیصل کو گود میں لیئے چھت پر ٹہل رہا تھا اتنے میں نعمان نے دیکھا کہ اچانک شازیہ چھت پر آگئی لیکن نعمان اس کو دیکھ کر چونک گیا کیونکہ شازیہ کے کپڑے پوری طرح سے گیلے تھے اس اس کے بال بھی بکھرے ہوئے تھے اور بالوں سے پانی ٹپک رہا تھا ایسا لگ رہا تھا جیسے شازیہ کپڑوں سمیت نہا کر آئی ہے نعمان نے شازیہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ارے تم نے یہ کیا حالت بنائی ہوئی ہے ؟ پتا بھی ہے کتنی ٹھنڈ ہے اور تم بنا چادر بنا دوپٹے کے ایسے گیلے کپڑے پہن کر اوپر آگئی ہو۔۔۔ تمہارا دماغ خراب تو نہیں ہو گیا ؟؟ شازیہ نے نعمان کی بات کا کوئی جواب نہیں دیا اور وہ وہیں بنا پلکیں جھپکے آنکھیں پھاڑے نعمان کی طرف دیکھ رہی تھی نعمان نے کہا تمہیں میری بات کی سمجھ نہیں آرہی کیا ؟؟ اسی وقت شازیہ اچانک چھت کی دیوار پر کھڑی ہو گئی اور چھت سے باہر گلی میں دیکھنے لگی نعمان نے چیخ کر کہا یہ تم کیا کر رہی ہو پاگل لڑکی ؟؟ یہ سنتے ہی شازیہ نے نعمان کی طرف ایسے دیکھا کہ شازیہ کے پورے جسم کا رخ باہر گلی کی طرف تھا اور صرف گردن پوری طرح سے مڑ کر نعمان کی طرف ہو گئی ایسا لگ رہا تھا جیسے شازیہ کا منہ اس کی کمر والی سائیڈ پر لگا ہوا ہے ۔ یہ دیکھ کر نعمان کے رونگٹے کھڑے ہو گئے اور شازیہ نعمان کی طرف دیکھتے ہوئے ہنسنے لگی ۔یہ دیکھنے کے بعد اب نعمان کو یقین ہو گیا تھا کہ یہ شازیہ نہیں ہے بلکہ کوئی اور ہی چیز ہے نعمان جلدی سے فیصل کو لے کر سیڑھیوں کی طرف گیا تو شازیہ بھی جانور کی طرح ہاتھوں پیروں سے دیوار پر چلتی ہوئی فورآ سیڑھیوں کے سامنے کھڑی ہو گئی ۔ نعمان نے جلدی سے آئیت الکرسی پڑھنی شروع کردی اور تھوڑی ہی دیر میں مغرب کی اذان کی آواز آئی اور شازیہ کی طرح دکھنے والی چیز اچانک سے چیخ کر غائب ہو گئی نعمان جلدی سے آئیت الکرسی پڑھتے ہوئے چھت سے نیچے چلا گیا اور نیچے جاتے ہی اپنے کمرے میں گیا تو دیکھا کہ شازیہ اپنے دونوں ہاتھوں سے اپنے کانوں کو بند کرتے ہوئے عجیب طریقے سے بیڈ پر کروٹیں بدل رہی تھی یہ دیکھتے ہی نعمان نے کہا کیا ہوا شازیہ ؟؟ اور تم یہ کیا کر رہی ہو ؟؟ شازیہ نے اچانک ڈراؤنی سی شکل بنا کر نعمان کی طرف دیکھا اور پھر سے غراتے ہوئے بیڈ پر لوٹ پوٹ ہونے لگی ایسا لگ رہا تھا جیسے شازیہ اذان کی آواز سن کر یہ سب کر رہی ہے یہ دیکھ کر نعمان شازیہ کی طرف دیکھتے ہوئے پیچھے کی طرف چلتا ہوا کمرے سے باہر نکل آیا اور کمرے کو باہر سے کنڈی لگا دی اور اس کنڈی کو دیکھتا ہوا پیچھے ہٹ رہا تھا کہ اتنے میں آمنہ نے نعمان کی طرف دیکھا اور بولی کیا ہوا بیٹا ؟؟ نعمان نے چونک کر آمنہ کی طرف دیکھا اور اپنے کانپتے ہوئے ہاتھ سے بنا بولے ہی دروازے کی طرف اشارہ کرنے لگا ؟؟ آمنہ نے جب نعمان کی یہ حالت دیکھی تو وہ بھی ڈر گئی اور نعمان کو ساتھ لے کر وہاں سے صحن میں آگئی اتنے میں اذان ختم ہو گئی اور شازیہ کے کمرے کے دروازے پر دھڑ دھڑ کی آواز آنے لگی جیسے کوئی زور زور سے دروازے پر مکے مارنے مار رہا ہو ۔ اتنے میں نادیہ بھی یہ آواز سن کر آئی اور دروازے کی طرف غور سے دیکھنے لگی اور آمنہ کی طرف دیکھتے ہوئے بولی امی یہ کیا ہو رہا ہے دروازے کو ؟؟ آمنہ نے کہا چھوڑ اسے اور جلدی سے یہاں آجاؤ دروازے کے پیچھے کوئی شیطانی چیز ہے یہ کہتے ہوئے آمنہ نے نعمان کی طرف دیکھا تو وہ ڈر سے تھر تھر کانپتے ہوئے دروازے کی طرف دیکھ رہا تھا اور پھر فیصل کو چومتے ہوئے کہنے لگا امی میں اب اپنے بچے کو اس ڈائین کے حوالے کبھی نہیں کرونگا ۔ یہ کہتے ہوئے نعمان نے فیصل کو آمنہ کی گود میں دیا اور خود آغا صاحب کو فون کرکے کے شازیہ کے بارے میں بتانے لگا آغا صاحب نے کہا میں جس بابا کو جانتا ہوں وہ کل آئے گا کیونکہ آج وہ کسی کام سے کہیں گیا ہوا ہے تم ایسا کرو کہ مسجد سے کسی مولوی صاحب کو لے کر آؤ میں بھی پہنچ رہا ہوں ۔ نعمان نے کہا ٹھیک ہے پاپا ۔ یہ کہتے ہوئے نعمان نے فون کاٹا اور آمنہ کو آغا صاحب کے ساتھ ہوئی بات کے بارے میں بتا کر مسجد کی طرف چلا گیا اتنے میں آمنہ نے نادیہ کو کہا چلو بیٹی ہم اپنے کمرے میں چلتے ہیں ۔ یہ کہہ کر آمنہ فیصل کو گود میں لیئے نادیہ کے ساتھ اپنے کمرے میں چلی گئی اور پھر سے دروازا بند کر کے ماں بیٹی سہم کر بیٹھ گئیں ۔ اتنے میں ایک زور دار دھاڑ کی آواز سنائی دی ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے کسی نے کسی دروازے کو لات مار کر کھولا ہو ۔ یہ آواز سنتے ہی آمنہ اور نادیہ آپس میں لپٹ کر بیٹھ گئیں اور ڈر سے کانپنے لگیں نادیہ آمنہ کی طرف دیکھ کر کچھ بولنے لگی تو آمنہ نے فوراً اپنی انگلی اپنے ہونٹوں پر رکھتے ہوئے نادیہ کو خاموش رہنے کا اشارہ کیا اور نادیہ چپ چاپ بیٹھی رہی اتنے میں آمنہ کے کمرے کے باہر سے ڈراؤنی سی آواز آنے لگی اور کسی کے بھاگتے ہوئے قدموں کی آواز سنائی دینے لگی جیسے کوئی تیزی سے غراتا ہوا بھاگ کر کہیں جا رہا ہو اور پھر سے واپس آکر آمنہ کے دروازے پر کھڑا ہو اور تیزی سے سانس لیتا ہوا دروازے کو کھولنے کی کوشش کر رہا ہو ۔ آمنہ نے منہ میں ہی آئیت الکرسی پڑھنی شروع کی تو پھر سے بھاگتے ہوئے قدموں کی آواز آئی جیسے کوئی بھاگ کر کہیں چلا گیا ہو ۔ آمنہ آئیت الکرسی پڑھتی رہی اتنے میں باہر گیٹ کے کھلنے کی آواز سنائی دی آمنہ نے سرگوشی میں نادیہ سے کہا نعمان آگیا ہے تم فیصل کے ساتھ کمرے میں ہی رہنا جب تک میں نا کہوں باہر نہیں نکلنا ۔ یہ کہہ کر آمنہ نے آہستہ سے دروازا کی کنڈی کھولی اور تھوڑا سا دروازا کھول کر دروازے کے اندر سے ہی باہر جھانکنے لگی لیکن آمنہ کو باہر کوئی نظر نہیں آرہا تھا تو آمنہ نے نادیہ سے کہا میرے باہر جاتے ہی کمرے کو اندر سے بند کر لینا میں نعمان کو دیکھنے جا رہی ہوں ۔ یہ کہہ کر آمنہ دروازے سے باہر نکلی اور نادیہ نادیہ نے فوراً آہستہ سے دروازا بند کر لیا آمنہ آہستہ سے قدم بڑھا کر اپنے کمرے سے تھوڑی دور گئی اور اس نے شازیہ کے کمرے کی طرف دیکھا تو شازیہ کے کمرے کا دروازا کھلا ہوا تھا یہ دیکھ کر جب آمنہ ابھی باہر صحن کی طرف جا ہی رہی تھی کہ اچانک آمنہ کو اپنے پیچھے سے کسی کے خوفناک طریقے سے ہنسنے کی آواز سنائی دی۔ جسے سنتے ہی آمنہ کے رونگٹے کھڑے ہو گئے اور جیسے ہی آمنہ نے ڈرتے ہوئے اپنے پیچھے دیکھا تو شازیہ آمنہ کی دروازے کی چھت کے ساتھ چھپکلی کی طرح چپٹی ہوئی تھی اور اس کی شکل پوری طرح سے بھیانک ہوچکی تھی اور وہ آمنہ کو دیکھتے ہی چھپکلی کی طرح رینگتے ہوئے چھت سے دیوار پر آئی اور دیوار سے چپکے ہوئے ہی تیزی سے چلتی ہوئی آمنہ کی طرف بڑھی اس کو اپنی طرف آتے دیکھ کر آمنہ کے پیروں تلے زمین ہی نکل گئی آمنہ نے جلدی سے باہر گیٹ کی طرف بھاگتے ہوئے آئیت الکرسی پڑھنی شروع کردی دی اور بھاگتے ہوئے گیٹ سے باہر گلی میں چلے گئی اور شازیہ گیٹ کے اندر کھڑی آمنہ کو اپنے خوفناک ٹیڑھے میڑھے ہاتھوں سے آمنہ کو واپس اندر آنے کا اشارہ کرتے ہوئے ہنسنے لگی آمنہ آئیت الکرسی پڑھتی رہی اور شازیہ پھر واپس گھر کے اندر چلی گئی آمنہ نے آئیت الکرسی پڑھتے ہوئے ادھر اُدھر دیکھا تو آمنہ کو دور سے نعمان کی گاڑی آتی ہوئی دکھائی دی۔ جب گاڈی آمنہ کے قریب آکر رکی تو آمنہ نے دیکھا کہ نعمان کے ساتھ کوئی داڑھی والا آدمی بھی گاڑی سے نکل رہا تھا نعمان نے گاڑی سے نکلتے ہی آمنہ کی طرف دیکھتے ہوئے حیرت سے کہا امی کیا ہوا ؟؟ آپ یہاں باہر کیوں کھڑی ہیں ؟؟ آمنہ نے کہا بیٹا شازیہ اپنے کمرے سے باہر آچکی ہے نعمان نے کہا کیا۔۔۔۔؟؟؟؟ وہ کیسے باہر آگئ میں نے تو اسے کمرے میں بند کیا تھا امی ؟؟ آمنہ نے کہا بیٹا یہ مجھے نہیں پتا پر ابھی ان باتوں کا وقت نہیں ہے پہلے تم اندر تو چلو نادیہ اور فیصل میرے کمرے میں ہیں اور وہ شیطانی ڈائین کمرے کے باہر گھوم رہی ہے نعمان نے مولوی صاحب کو کہا مولوی صاحب جلدی اندر چلیں میری بہن اور بیٹے کی جان خطرے میں ہے ۔ یہ کہتے ہوئے نعمان آمنہ اور مولوی صاحب کے ساتھ جلدی سے گھر کے اندر گیا تو دیکھا کہ آمنہ کے دروازے کا کمرا کھلا ہوا تھا آمنہ نے دروازے کی طرف تیزی سے بڑھتے ہوئے کہا ہائے میری بچی یہ کہتے ہوئے جب آمنہ کمرے میں گئی تو نادیہ ایک کونے میں بیہوش پڑی تھی اور فیصل وہاں نہیں تھا آمنہ اور نعمان دوڑ کر نادیہ کے پاس گئے پھر آمنہ نادیہ کو ہوش میں لانے کی کوشش کرنے لگی اتنے میں نعمان نے آمنہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا امی فیصل کہاں ہے ؟؟ آمنہ نادیہ کا سر اپنی گود میں رکھتے ہوئے بولی بیٹا فیصل تو نادیہ کے پاس ہی تھا پر میں نے تو نادیہ سے کہا تھا جب تک میں نا کہوں دروازا مت کھولنا پر دیکھو یہ کیا ہو گیا میری بیٹی کو۔۔۔۔۔؟؟ اور فیصل بھی لا پتا ہے یہ سب میری غلطی ہے ۔ نعمان نے جلدی سے نادیہ کو اٹھایا اور اسے بیڈ پر لیٹا دیا اور جلدی سے پانی لا کر نادیہ کے منہ پر پانی کے چھینٹیں مارے اور کچھ دیر میں نادیہ ہوش میں آئی تو آمنہ اور نعمان کی طرف دیکھنے لگی پھر اک دم سے ڈر کر آمنہ کے گلے سے لگ کر رونے لگی۔ آمنہ نے کہا رو مت میری بیٹی رو مت سب ٹھیک ہو جائے گا۔ لیکن نادیہ مسلسل روئے جا رہی تھی اور ڈر سے کانپ رہی تھی آمنہ نے نادیہ کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا بیٹی کچھ نہیں ہوگا بس بس اب چپ ہو جاؤ اتنے میں آغا صاحب بھی آگئے اور آتے ہی نادیہ کو دیکھ کر بولے کیا ہوا میری بیٹی کو؟ پھر آغا صاحب نے آمنہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا کیا ہوا ہے یہاں ؟؟ آمنہ نے آغا صاحب کو جو ہوا اس کے بارے میں بتایا تو آغا صاحب نے نادیہ سے کہا بیٹی رو مت دیکھو میں آگیا ہوں اتنے میں نعمان نے نادیہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا نادیہ فیصل کہاں ہے ؟؟ نادیہ نے روتے ہوئے کہا جب میں کمرے میں تھی تو مجھے امی نے کہا بیٹا دروازا کھولو میں ہوں تمہاری امی۔۔ اور جب میں نے دروازا کھولا تو وہ امی نہیں کوئی ڈراؤنی بھیانک شکل والی عورت تھی پھر اس نے میرا گلا پکڑ لیا تھا اور فیصل کو مجھ سے چھین کر مجھے زور سے دھکا دیا اور مجھے چکر سا آیا باقی مجھے کچھ یاد نہیں ہے یہ کہتے ہوئے نادیہ پھر سے زور زور سے رونے لگی۔ آغا صاحب نے آمنہ سے کہا تم اسے سمبھالو اور کمرا اندر سے بند کر لو ہم فیصل کو دیکھتے ہیں ۔ یہ کہتے ہوئے آغا صاحب نعمان اور مولوی صاحب آمنہ کے کمرے سے باہر آگئے اور آمنہ نے دروازا اندر سے بند کر لیا۔ اور نعمان باقی لوگوں کے ساتھ شازیہ کے کمرے میں گیا تو وہاں شازیہ نہیں تھی اس کے بعد سب لوگ اوپر والی منزل پر گئے لیکن شازیہ اور فیصل وہاں بھی نہیں تھے اتنے میں چھت پر کسی کے بھاگنے کی آواز سنائی دی آغا صاحب اور نعمان ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے اور پھر تیزی اوپر چھت کی طرف دوڑے اور جیسے ہی نعمان وغیرہ چھت پر پہنچے تو دیکھا کہ کوئی چھوٹا سا بچہ ٹھنڈی زمین پر بنا کپڑوں کے لیٹا ہوا تھا لیکن وہ ہل جل نہیں رہا تھا اسے دیکھتے ہی نعمان نے کہا فیصل ۔۔۔۔۔۔ اور جلدی سے جاکر اس کو اٹھانے لگا تو نعمان نے دیکھا کہ فیصل کی ایک ٹانگ بازو اور جسم کا کچھ حصہ نہیں تھا اور فیصل خون میں لت پت تھا ایسا لگ رہا تھا جیسے اس کے جسم کو کسی نے کھا لیا تھا جس کی وجہ سے فیصل مر چکا تھا یہ دیکھتے ہی نعمان چیخیں مار کر رونے لگا اور جب آغا صاحب نے بھی یہ سب دیکھا تو آغا صاحب بھی گھٹنوں کے بل بیٹھ کر ڈھاڑیں مارتے ہوئے رونے لگے اور روتے ہوئے انہوں نے نعمان کو گلے سے لگا لیا اور کچھ دیر لپٹ کر رونے کے بعد روتے ہوئے فیصل کی لاش کو اٹھا کر نیچے لے آئے اور جب آمنہ اور نادیہ نے بھی فیصل کی لاش کو دیکھا تو آمنہ تو فوراً ہی بیہوش ہو کر کر پڑی اور نادیہ روتے ہوئے آمنہ کو اٹھانے لگی پھر آغا صاحب آمنہ کو ہوش میں لائے تو ایک بار پھر سے سب ڈھاڑیں مار کر رونے لگے اتنے میں کسی کے ہنسنے کی آواز سنائی دی اور سب لوگوں نے دیکھا کہ شازیہ الٹے پیروں کے ساتھ سیڑھیوں سے نیچے اتر کر آئی کیونکہ اس کے پاؤں کے پنجے الٹی طرف تھے ۔ جسے دیکھ کر مولوی صاحب نے کہا یہ کوئی لڑکی نہیں ہے بلکہ یہ شیطانی چیز ہے کوئی اس کے قریب مت جائے۔ شازیہ سیڑھیوں پر بیٹھ گی اس کے منہ پر کافی سارا خون لگا ہوا تھا اس دوران وہ پاگلوں کی طرح خوفناک آواز میں ہنسنے لگی اور نعمان کی طرف دیکھتے ہوئے ڈبل آواز میں بولی کیا کہا تھا تونے کہ اب میں اپنے بیٹے کو اس ڈائین کے حوالے نہیں کرونگا تو دیکھ آج تیرا بچہ تیرے پاس بھی نہیں رہا میں اس بچے سے بہت پیار کرنے لگی تھی پر تونے مجھے اس بچے سے دور کرنے کی بات کر کے مجھے غصہ دلا دیا تھا اور دیکھ جب مجھے غصہ آتا ہے تو میں کیا کرتی ہوں اب تو اپنے بچے کو ترسے گا۔ اور جب بھی تیری کوئی اولاد ہو گی میں اس کا یہی حال کروں گی ویسے تیرے بچے کا گوشت بہت لذیذ ہے لا اب یہ مرا ہوا بچہ مجھے دے دے ویسے بھی اب یہ تیرے کسی کام کا نہیں ہے لا میں اسے کھا لیتی ہوں یہ کہتے ہوئے شازیہ پھر سے ہنسنے لگی۔ مولوی صاحب نے کچھ پڑھا اور شازیہ کی طرف بڑھے لیکن جیسے ہی شازیہ نے مولوی صاحب کو اپنی طرف آتے دیکھا تو اس نے مولوی صاحب پر حملہ کرنے کی کوشش کی تو مولوی صاحب نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا اس کے ناخن باہر نکلے ہوئے تھے جیسے کہ کسی خونخوار جانور کے ناخن باہر نکلے ہوتے ہیں مولوی صاحب نے اس پر پھونک ماری تو شازیہ چیخنے ہوئے تڑپنے لگی لیکن مولوی صاحب نے اس کا ہاتھ نہیں چھوڑا اور پھر مولوی صاحب نے جیب سے ایک تعویذ نکال کر شازیہ کے گلے میں ڈال دیا اور تعویذ کے گلے میں ڈلتے ہی شازیہ کانپنے لگی اور پھڑپھڑانے لگی پھر اچانک جھٹکے سے بیہوش ہو کر گر گئی پھر مولوی صاحب نے نعمان سے کہا اسے اٹھا کر اندر لے جاؤ ۔ نعمان نے کہا اس منحوس سے میرا کوئی واسطہ نہیں ہے اس کو اٹھا کر گھر سے باہر پھینک دو۔ یہ سنتے ہی مولوی صاحب نے کہا دیکھو جوان میں یہ تو نہیں جانتا یہ لڑکی کون ہے پر اتنا ضرور کہوں گا جو بھی ہوا اس میں اس معصوم کا کوئی قصور نہیں ہے کیونکہ یہ جو بھی تمہارے بچے کے ساتھ ہوا ہے وہ اس نے نہیں بلکہ اس کے اندر جو شیطانی چیز ہے اس نے کیا ہے اس کو تو پتا بھی نہیں ہے کہ کیا ہوا ہے ۔ نعمان نے کہا مولوی صاحب یہ سب اسی نے کیا ہے اس کو میری نظروں کے سامنے سے دور کر دو ۔ اتنے میں آغا صاحب نے کہا نعمان وہ تمہاری بیوی ہے اور فیصل کی ماں بھی ہے اور تم اس گھڑی میں اس پر اور ظلم مت کرو ۔ دیکھو مولوی صاحب ٹھیک کہہ رہے ہیں جو بھی ہوا اس میں شازیہ کا کوئی قصور نہیں ہے ۔ مولوی صاحب نے کہا کیا یہ لڑکی فوت ہوئے بچے کی ماں ہے ؟؟ آغا صاحب نے کہا جی مولوی صاحب ۔ یہ سن کر مولوی صاحب نے کہا تو پھر یہ بات سن لو ایک ماں کبھی اپنی اولاد کے ساتھ ایسا نہیں کر سکتی جیسا تم سمجھ رہے ہو بلکہ ماں تو اپنی اولاد کے لیئے اپنی جان بھی دے دیتی ہے اس لیئے میرا تم سب کو یہی مشورہ ہے اس پر اور ظلم مت کرنا کیونکہ جب یہ ہوش میں آئے گی تو بچے کی لاش دیکھ کر اس پر کیا گزرے گی وہ تو یہی جانتی ہے لیکن میں سمجھتا ہوں سب سے بڑا دھچکا اس لڑکی کو ہی لگے گا ۔ نعمان نے مولوی صاحب کی طرف دیکھتے ہوئے کہا پر مولوی صاحب یہ تو ہوش میں آکر ہمیں بھی مار سکتی ہے مولوی صاحب نے کہا جب تک یہ تعویذ اس کے گلے میں ہے تب تک یہ کسی کو کچھ نہیں کہہ سکتی بس یہ تعویذ اس کے گلے سے مت اترنے دینا کیونکہ میں نے اس تعویذ کے ذریعے اس کے اندر کی شیطانی چیز کو ابھی فلحال اس سے دور کر دیا لیکن اگر آپ اس کو نماز پڑھنے کی طرف لگا لیں تو وہ شیطانی چیز ہمیشہ کے لیئے اسے ہمیشہ کے لیئے چھوڑ کر دور چلی جائے گی۔ یہ سن کر نعمان اٹھا اور آمنہ کی مدد سے شازیہ کو کمرے میں لے گیا اور بیڈ پر لیٹا کر واپس آگیا اور مولوی صاحب نے کہا اگر کسی وجہ سے تعویذ اتر بھی جائے تو گیارہ مرتبہ سورۃ الناس پڑھ کر اس پر پھونکتے رہنا اور گیارہ مرتبہ فاتحہ پڑھ کر پانی پر دم کر کے اس کو پلا دینا تو یہ پھر سے نارمل ہو جائے گی اور مجھ سے دوبارہ تعویذ لے کر اس کے گلے میں ڈال دینا یہ کہہ کر مولوی صاحب چلے گئے پھر کچھ دیر کے بعد جب شازیہ کو ہوش آیا تو وہ کمرے سے باہر آئی اور جیسے ہی شازیہ کی نظر فیصل پر پڑی تو وہ اپنے ہوش کھو بیٹھی اور چکرا کر زمین پر گر پڑی نعمان نے جلدی سے شازیہ کو اٹھایا اور پھر سے اس کو ہوش میں لایا تو شازیہ تو اپنا سر زمین پر پٹخ کر رونے لگی اور روتے ہوئے کہنے لگی کیا ہوا میرے بچے کو ؟؟ کوئی بتاتا کیوں نہیں کیا ہوا میرے فیصل کو۔۔؟؟ پھر نعمان کا گریبان پکڑ کر بولی کیا کیا ہے میرے فیصل کے ساتھ؟؟ یہ کہتے ہوئے پھر سے اپنا سر پٹختے ہوئے رونے لگی شازیہ کا سر پھٹ گیا تو آمنہ نے جلدی سے شازیہ کو پکڑا کر گلے سے لگا لیا اور روتے ہوئے کہنے لگی صبر کرو میری بچی صبر کرو ۔ اتنے میں آغا صاحب نے شازیہ کے گھر کو بھی اطلاع دی اور کچھ دیر میں شازیہ کے گھر والے بھی آگئے اور انہیں بھی سارا واقع سنایا تو حاجرہ نے کہا میں نے پہلے ہی ان بچوں کو منع کیا تھا لیکن آپ لوگوں نے ان بچوں کو نکلنے ہی نہیں دینا تھا ہماری بچی میں تو ایسی کوئی شیطانی چیز تھی ہی نہیں پھر کیسے وہ شیطانی چیز ہماری بیٹی کے اندر آگئی مجھے تو لگتا ہے یہ سب چھلے میں باہر نکلنے کی وجہ سے ہوا ہے اور یہ سب آپ لوگوں کی غلطی کی وجہ سے ہوا ہے نہ آپ لوگ ان کو باہر جانے دیتے اور نہ میں اپنی بیٹی کی گود اجڑتے ہوئے دیکھتی یہ سب آپ لوگوں نے کیا ہے ۔ یہ کہتے ہوئے حاجرہ آمنہ کو برا بھلا کہنے لگی ۔ اتنے میں ججی نے آگے بڑھ کر حاجرہ کو پکڑا آمنہ سے دور کر کے بیٹھا دیا اور پھر وہ سب بھی رونے دھونے لگے پھر کافی دیر کے بعد فیصل کا کفن دفن کیا اور پوری رات پورا گھر سوگ میں ڈوبا رہا۔ نعمان آغا صاحب اور ججی کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا اچانک آغا صاحب نے نعمان سے کہا نعمان میری سمجھ میں یہ نہیں آرہا کہ شازیہ کے اندر وہ شیطانی چیز کیسے آگئی ہمارے گھر میں تو ایسا کچھ بھی نہیں تھا نعمان نے کہا ابو میں آپ سے بہت شرمندہ ہوں میں نے آپ سے ایک بات چھپائی تھی اور اسی وجہ سے شاید میں نے آج اپنے فیصل کو کھو دیا ۔ آغا صاحب اور ججی نے حیرانی سے نعمان کی طرف دیکھا پھر آغا صاحب نے کہا یہ تم کیا کہہ رہے ہو اور کیا بات چھپائی تھی تم نے ؟؟ نعمان نے آنکھوں سے آنسوں صاف کرتے ہوئے کرتے ہوئے کہا ابو یاد ہے نا ایک دن پہلے رات کو میری گاڑی کا ٹائر پھٹ گیا تھا ؟؟ آغا صاحب نے کہا ہاں ابھی کل ہی کی بات ہے؟ ۔ نعمان نے کہا جب آپ گاڑی لے کر آئے تھے تو اس سے پہلے ہمارے ساتھ اس قبرستان کے پاس بہت کچھ ہو چکا تھا پر میں نے آپ کو پوری بات نہیں بتائی تھی ۔ آغا صاحب نے کہا مجھے سمجھ نہیں آرہا تم کہنا کیا چاہتے ہو صاف صاف کہو ؟؟ اس دوران ججی بھی انجانوں کی طرح یہ سب سن رہا تھا اور سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا کہ آخر ہوا کیا تھا ۔ نعمان نے پھر آغا صاحب اور ججی کو اس واقعے کی ایک ایک بات صاف صاف بتائی اور آغا صاحب اپنا سر پکڑ کر بیٹھ گئے اور ججی پھر سے رونے لگا اور روتے ہوئے کہنے لگا کاش مجھے پہلے پتا ہوتا تو میں تمہیں اس رات اپنے گھر سے نکلنے ہی نا دیتا یہ میری غلطی ہے کیوں میں نے تمہیں نہیں روکا.... کیوں میں نے تمہیں جانے دیا میں بہت برا ہوں بہت برا۔۔ آغا صاحب نے ججی کو دلاسہ دیتے ہوئے کہا صبر کرو ججی تم ہی ایسے رونے لگو گے تو ہم ان بچوں کو کیسے سنبھال پائیں گے صبر کرو میرے محسن صبر کرو۔ پھر نعمان نے آغا صاحب کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ابو مجھے معاف کر دیں میں بس آپ لوگوں کو پریشان نہیں کرنا چاہتا تھا اور میں تو یہی سمجھ رہا تھا کہ ہم گھر آگئے ہیں اور سب کچھ ٹھیک ہو گیا ہے لیکن ابو مجھے نہیں پتا تھا کہ وہاں سے ہم شازیہ کے ساتھ کسی شیطانی چیز کو بھی ساتھ لے کر آئیں ہیں ۔ آغا صاحب نے کہا غلطی تو تم نے کی ہے پر تمہاری اس ایک غلطی کی وجہ سے آج سارے گھر والے سوگوار ہیں اگر تم نے مجھے اسی رات ہی یہ سب بتا دیا ہوتا تو شاید آج ہم لوگ ایسے نہ بیٹھے ہوتے ۔ نعمان نے روتے ہوئے کہا ابو مجھے معاف کر دیں میں آپ سب لوگوں کا گناہگار ہوں مجھے معاف کر دیں ۔ یہ کہتے ہوئے نعمان پھر سے آغا صاحب کے گلے لگ کر رونے لگا ۔ آغا صاحب نے بھی آنکھوں میں آنسوں لیئے نعمان سے کہا بیٹا اب جو ہونا تھا وہ تو ہو چکا اس سب میں ہم سب بھی کہیں نا کہیں خود کو خطاکار سمجھتے ہیں ۔ کاش آمنہ نے تمہیں باہر نہ جانے دیا ہوتا اور کاش تم حاجرہ کی بات پر عمل کرتے۔ ججی نے کہا آغا صاحب اس سب میں میرا بھی سب سے بڑا گناہ ہے جو میں نے حاجرہ کی باتوں کو فضول کہتے ہوئے ان بچوں کا ساتھ دیا ۔ آغا صاحب نے کہا ججی شاید ہم سب کی قسمت میں یہی لکھا تھا ۔ اتنے میں آمنہ آئی اور نعمان کی طرف دیکھتے ہوئے بولی بیٹا شازیہ کو بھی دیکھ لو وہ بیچاری بار بار بیہوش ہو رہی ہے اسے کچھ کھلا دو مجھے لگتا ہے اس نے گزشتہ رات سے ٹھیک سے کچھ کھایا نہیں ہے ۔ یہ سن کر نعمان شازیہ کے پاس گیا تو دیکھا کہ شازیہ فیصل کے کپڑے ہاتھوں میں لیئے بیہوش پڑی تھی اور حاجرہ نے نعمان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا بیٹا شازیہ کو دیکھو یہ بار بار بیہوش ہو رہی ہے اس کو بہت کمزوری ہو گئی ہے اسے کچھ کھلا دو نعمان شازیہ کے پاس بیٹھ گیا اور اسے ہوش میں لا کر کچھ کھلانے لگا شازیہ نے کہا مجھے کچھ نہیں کھانا مجھے بس میرا فیصل چاہیئے۔۔۔ مجھے میرا بچہ چاہیئے۔۔۔ نعمان نے کہا شازیہ صبر کرو مجھے پتا ہے یہ اتنا آسان نہیں ہے پر فیصل جنت میں چلا گیا ہے اللّٰہ ہمیں پھر سے ہمیں اپنی رحمت سے نوازے گا انشاء اللّٰہ ۔ چلو اب کچھ تو کھا لو شازیہ نے فیصل کے کپڑوں کو چومتے ہوئے کہا میرا دل نہیں کر رہا مجھے صبر نہیں آئے گا میرا فیصل زمین کے نیچے چلا گیا ہے اور آپ لوگ کہہ رہے ہیں میں کچھ کھا لوں لیکن مجھ بھی اپنے بچے کے پاس جانا ہے مجھے میرا بچہ واپس چاہیئے یہ کہتے ہوئے شازیہ پھر سے روتے ہوئے بیہوش ہو گئی ۔ نعمان بھی شازیہ کی یہ حالت دیکھ کر رونے لگا اور پھر کچھ دیر میں سب لوگ شازیہ اور نعمان کے پاس بیٹھے رہے اتنے میں حاجرہ نے آمنہ سے کہا آمنہ باجی اگر آپ لوگوں کی اجازت ہو تو کیا ہم شازیہ کو کچھ دن کے لیئے اپنے گھر لے کر جا سکتے ہیں ؟؟کیونکہ یہاں رہے گی تو اسے بار بار فیصل کی یاد ستائے گی اور جب ہم شازیہ کو ساتھ لے جائیں گے تو اس دوران آپ لوگ فیصل کی ساری چیزوں کو اس کے کمرے سے اٹھا لینا تاکہ شازیہ کو صبر آ سکے ۔ آمنہ نے کہا جی جی ٹھیک ہے آپ شازیہ کو لے جانا ۔ اس کے بعد حاجرہ اور ججی وغیرہ شازیہ کو اپنے گھر لے آئے ۔ اور جیسے تیسے کچھ دن سوگ کرنے کے بعد شازیہ کچھ کچھ سنبھلنے لگی اور اس دوران نعمان بھی اکثر شازیہ سے ملنے ججی کے گھر آجاتا تھا پھر کچھ دن ایسے ہی گزرے اور شازیہ اب پوری طرح فیصل کے غم سے ابھر چکی تھی ایک دن شازیہ کے محلے کی ایک سہیلی رمشاء شازیہ کو اپنے ساتھ بازار لے کر جانے کے لیئے آئی ۔ شازیہ نے حاجرہ سے اجازت لی اور اپنی سہیلی کے ساتھ بازار چلے گئی وہاں رمشاء نے کچھ جیولری وغیرہ لی اور پھر رمشاء نے شازیہ کے لیئے بھی ایک فینسی چین خریدی جو کے شازیہ کو بہت اچھی لگ تھی لیکن شازیہ نے وہ نہیں خریدی بس دیکھ کر رکھ دی تھی یہ دیکھتے ہوئے رمشاء نے وہ چین شازیہ کے لیئے خرید لی شازیہ نے بہت منع کیا پر رمشاء نے کہا میری خوشی کے لیئے رکھ لو ۔ شازیہ نے کہا اچھا ٹھیک ہے اس کے بعد شازیہ اور رمشاء دونوں گھر آگئیں اور اپنی باتوں میں مصروف ہو گئیں ۔ اس دوران ججی بھی گھر کھانا کھانے کے لیئے آیا ہوا تھا حاجرہ نے ججی کے آگے کھانا رکھا تو ججی کھانے سے بے خبر ہو کر شازیہ کو اپنی سہیلی کے ساتھ ہنستا کھیلتا دیکھ رہا تھا پھر ججی نے حاجرہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا دیکھو حاجرہ آج ہماری بچی بہت خوش لگ رہی ہے اور ایسا لگتا ہے آج یہ فیصل کے غم سے پوری طرح باہر آ چُکی ہے حاجرہ نے کہا ہاں مجھے بھی یہی لگتا ہے ۔پھر ججی نے مسکراتے ہوئے حاجرہ سے کہا آج مجھے یقین ہو گیا ہے کہ تم چاہے اتنا پڑی لکھی نہیں ہو پر تمہاری باتوں میں حکمت ضرور ہوتی ہے اور تمہارا شازیہ کو اپنے ساتھ لانے کا فیصلہ سو فیصد درست فیصلہ تھا ۔ حاجرہ نے کہا اس میں کوئی شک نہیں کہ پڑھائی کا زندگی میں بہت اونچا مقام ہے اور پڑھائی سب کے لیئے بہت ضروری ہے کیونکہ پڑھائی ہماری زندگی میں بہت اہم کردار ہے ۔ لیکن اس کے ساتھ ہمارے بزرگوں کی باتیں بھی ہمیں زندگی کی بہت سی اونچ نیچ کے بارے میں خاص کردار ادا کرتی ہیں اور دیکھا جائے تو پڑھائی بھی ہمیں یہی سکھاتی ہے کہ ہم اچھے برے کی پہچان کر سکیں چھوٹوں سے شفقت اور بڑوں کی عزت کریں اور خاص طور پر اپنے بزرگوں کی باتوں اور ان کی زندگی کے تجربات زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کریں تاکہ برزگوں کی نصیحتوں اور ان کی دعاؤں سے ہماری زندگی میں آسانیاں پیدا ہوں اور ہم کبھی بھی ان کی باتوں کو نظر انداز نہ کریں ۔ اسی وجہ سے میں نے بس وہی کیا جو مجھے میری والدہ مرحومہ نے مجھ سکھایا تھا انہوں نے ہی زندگی کے تمام اتار چڑھاؤ خوشی غمی کے بارے میں مجھے بتایا اور سکھایا تھا میں جب بھی زندگی میں کبھی پریشان ہوتی تھی تو میری والدہ مرحومہ ہی مجھے اس پریشانی کا حل اور اس حل کے لیئے دعا بتایا کرتیں تھیں ۔ اور یہی چیز میں نے ہمیشہ شازیہ کو سکھانے کی کوشش کی ہے پر آپ اور شازیہ ہمیشہ میری باتوں پرانے زمانے کی باتیں کہہ کر نظر انداز کر دیتے تھے۔ ججی نے کہا ہاں اس بات کا مجھے آج تک افسوس ہے ۔ بس میں یہی سمجھتا تھا کہ ہماری بیٹی پڑھی لکھی ہے اور آج کے زمانے کی ایک مظبوط لڑکی ہے اور تم اس پر اپنے پرانے زمانے کی باتیں تھوپ رہی ہو ۔ لیکن میں یہ بھول گیا تھا کہ جس طرح زندگی بسر کرنے کے لیئے پڑھائی ضروری ہے اتنی ہی ضروری ہمارے بزرگوں کی باتیں اور نصیحتیں بھی ہیں لیکن آج سے میں بھی ان باتوں کو ذہن نشین کر لوں گا ۔ حاجرہ نے مسکراتے ہوئے کہا اچھا چلیں دیر آئے درست اب کھانا کھالیں ٹھنڈا ہو رہا ہے ۔ ججی نے کہا ہاں ہاں مجھے دوکان پر بھی جانا ہے آغا صاحب نے کسی کام سے شہر سے باہر جانا ہے یہ کہتے ہوئے ججی کھانا کھانے لگا ۔ اتنے میں رمشاء اپنے گھر چلی گئی اور پھر شازیہ کو نعمان کا فون آیا تو نعمان نے شازیہ سے کہا شام کو تیار ہو جانا آج ہم باہر کھانا کھائیں گے بہت دن ہو گئے ہیں ہم کہیں گھومنے نہیں گئے ۔ شازیہ نے کہا اچھا ٹھیک ہے آپ آجائیے گا میں آپ کو تیار ملوں گی اس کے بعد نعمان نے فون کاٹ دیا اور شازیہ نے حاجرہ کو نعمان کے فون کے بارے میں بتایا تو حاجرہ نے خوشی سے شازیہ کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا ہاں ہاں جاؤ بیٹی اور اچھے سے تیار ہو کر جانا۔ شازیہ نے کہا جی امی ۔ یہ کہہ کر شازیہ اپنے کمرے میں چلی گئی اور کچھ دیر میں تیار ہونے لگی اسی دوران شازیہ نے وہ چین نکالی اور آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر پہننے لگی تو شازیہ نے دیکھا کہ اس کے گلے میں جو تعویذ ہے اس کی وجہ سے چین کی خوبصورتی کم ہو رہی ہے کیونکہ کبھی تعویذ چین کے اوپر آجاتا تھا تو کبھی چین کے نیچے آرہا تھا جس کی وجہ سے چین اچھی نہیں لگ رہی تھی شازیہ نے اپنا تعویذ اتار کر الماری میں رکھ دیا پھر آئینے میں اپنی چین کو دیکھ کر بولی واؤ اب یہ بہت خوبصورت لگ رہی ہے اس کے بعد شازیہ پوری طرح سے تیار ہو کر نعمان کا انتظار کرنے لگی اتنے میں شام ہو گئی اور نعمان بھی آگیا شازیہ نے جلدی سے حاجرہ سے اجازت لی اور نعمان کے ساتھ چلی گئی پھر شازیہ نے نعمان کے ساتھ ریسٹورنٹ میں کھانا کھایا اور وہاں سے فارغ ہو کر دونوں کسی پارک میں چلے گئے اور وہاں دونوں میاں بیوی چہل قدمی کرنے لگے اسی دوران شازیہ ایک درخت کے نیچے سے گزری تو اچانک شازیہ نے نعمان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا چلو اب گھر چلتے ہیں پتا نہیں اچانک میرا سر بھاری سا ہو رہا ہے نعمان نے کہا یار ابھی تو تم ٹھیک تھی اور تمہی نے تو کہا تھا کہ کسی پارک میں چلتے ہیں تو اب اچانک کیا ہو گیا تمہیں ؟؟ شازیہ نے کہا پتا نہیں پر مجھے بہت عجیب سا لگ رہا ہے ۔ یہ کہتے ہوئے شازیہ اپنے ہاتھوں انگلیوں کو عجیب طریقے سے کھولنے اور بند کرنے لگی نعمان نے شازیہ کے ہاتھوں کی طرف دیکھا اور بولا کیا ہو رہا ہے تمہیں؟؟ یہ کہتے ہوئے نعمان نے اپنا ہاتھ شازیہ کے ماتھے پر رکھا اور بولا تمہیں تو بہت تیز بخار ہو رہا ہے چلو چلتے ہیں پہلے تمہیں ڈاکٹر کے پاس لے کر جاتا ہوں پھر تمہیں گھر چھوڑ دونگا یہ سن کر شازیہ بنا بولے ہی نعمان کے ساتھ گاڑی میں بیٹھ گئی پھر نعمان اسے ڈاکٹر کے پاس لے گیا ڈاکٹر نے شازیہ کا چیکپ کیا تو ڈاکٹر اک دم سے گھبرا گیا اور شازیہ کی طرف غور سے دیکھنے لگا نعمان نے حیرت سے ڈاکٹر کی طرف دیکھتے ہوئے کہا کیا ہوا ڈاکٹر صاحب سب ٹھیک تو ہے ؟؟ ڈاکٹر نے بنا بولے نعمان کی طرف دیکھا اور پھر سے شازیہ کا چیکپ کرنے لگا جیسے ہی ڈاکٹر شازیہ کو اسٹیتھو سکوپ شازیہ کی کمر پر لگا کر شازیہ سے لمبی سانس لینے کو کہا تو شازیہ نے سانس لی لیکن اسٹیتھو سکوپ میں شازیہ کی سانس کی زرا بھی آواز نہیں سنائی دے رہی تھی یہ سب دیکھ کر ڈاکٹر بھی چکرا گیا اور ڈاکٹر نے دوسرا اسٹیتھو سکوپ لگایا پر پھر سے وہی ہو رہا تھا ڈاکٹر گھبرا کر کبھی نعمان کی طرف دیکھتا تو کبھی شازیہ کی طرف دیکھتا ۔ نعمان نے پھر سے کہا ڈاکٹر صاحب آپ بتا کیوں نہیں رہے آخر بات کیا ہے ڈاکٹر نے پھر دل کی دھڑکن چیک کرنے والا آلہ نکالا اور شازیہ کی دل کی دھڑکن چیک کرنے لگا اس دوران شازیہ ڈاکٹر کی طرف بنا پلکیں جھپکے دیکھ رہی تھی اتنے میں اچانک ڈاکٹر شازیہ سے چار پانچ قدم پیچھے ہٹ گیا شازیہ کی طرف غور سے دیکھنے لگا اور پھر دل کی دھڑکن چیک کرنے والے آلے کو دیکھنے لگا اور نعمان کی طرف دیکھتے ہوئے بولا انہیں یہاں سے لے جائیں یہ میری سمجھ سے باہر ہیں ۔ نعمان نے کہا ڈاکٹر آخر ہوا کیا ہے میں کب سے دیکھ رہا ہوں آپ بہت عجیب برتاؤ کر رہے ہیں آخر آپ کو چیکپ کرنے میں دشواری کیوں ہو رہی ہے ؟؟ ڈاکٹر نے نعمان کی طرف دیکھتے ہوئے تلخ لہجے میں کہا کیونکہ میں زندہ لوگوں کا چیکپ کرتا ہوں مردہ لوگوں کا نہیں ۔ نعمان نے ڈاکٹر سے کہا کیا مطلب ہے آپ کا ؟؟ ڈاکٹر نے کہا نا تو اس لیڈی کی سانس چل رہی ہے اور نہ ہی اس کے دل کی دھڑکن چل رہی ہے اور میڈیکل سائنس کے حساب سے یہ مردہ لوگوں کی کنڈیشن ہوتی ہے جو کہ زندہ نہ ہوں ۔ نعمان نے حیرت سے شازیہ کی طرف دیکھا اور پھر مسکراتے ہوئے ڈاکٹر سے کہنے لگا ڈاکٹر صاحب ایسا لگتا ہے جیسے میری بیوی کو نہیں آپ کو چیکپ کی ضرورت ہے اور مجھے لگتا ہے کہ میں کسی پاگل خانے کے ڈاکٹر کے پاس آگیا ہوں جو کہ بہت ہی عجیب قسم کا ڈاکٹر نے ۔ ڈاکٹر نے پھر سے نعمان سے کہا عجیب میں نہیں عجیب یہ لڑکی ہے جس کو ساتھ لیئے تم گھوم رہے ہو ۔ یہ سنتے ہی نعمان نے ڈاکٹر کو برا بھلا کہا اور شازیہ کو ساتھ لے کر وہاں سے باہر جانے لگا اور جیسے ہی نعمان شازیہ کو لے کر کلینک سے باہر نکلا تو ڈاکٹر ان کے پیچھے باہر نکل آیا اپنے کلینک کے دروازے پر کھڑا ان کو دیکھتا رہا اتنے میں نعمان گاڑی میں بیٹھا اور شازیہ نے گاڑی میں بیٹھنے سے پہلے اچانک خوفناک سی شکل بنا کر ڈاکٹر کی طرف دیکھا تو ڈاکٹر کو اک دم جھٹکا سا لگا اور وہ پیچھے کی طرف گر گیا ڈاکٹر نے جلدی سے اٹھ کر کلینک کا دروازا اندر سے بند کر لیا اور دروازے کے شیشے سے باہر دیکھنے لگا تو شازیہ نے پھر سے ڈاکٹر کی طرف دیکھا اور مسکرا کر گاڑی میں بیٹھ گئی لیکن یہ دیکھ کر پوری طرح سے ڈر گیا
Also Read:
0 Comments